والدین و اساتذہ کے لیے بہترین آغاز

والدین و اساتذہ کے لیے بہترین آغاز

میں پچھلے کوئی دس سال سے اساتذہ کی تربیت کے ساتھ منسلک رہا ہوں اور اس دوران میں مَیں نے ہزاروں اساتذہ کی تربیت کی۔ میں  جب بھی اساتذہ کی تر بیت  شروع کرتا ہوں توان سےایک سرگرمی ضرور کرواتا ہوں۔  وہ اس  جماعت  کا تصور کرتے ہیں  جس کو وہ آج پڑھا رہے ہیں اور درج ذیل سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہیں۔  

  • جب آپ اس  جماعت  میں تھے تو آپ کو کیا اچھا لگتا تھا؟
  • کیا کچھ آپ کو ناپسند تھا؟
  • کیاچیزیں  آپ کو پڑھنے کی طرف راغب کرتی تھیں؟ 
  • کیا چیزیں آپ کو پڑھائی سے دور لے جاتی تھیں؟
  • کمرہ جماعت میں کس قسم کا ماحول آپ کو پسند تھا؟
  • کس استاد کوآپ پسند کرتے تھے اور کیوں؟
  • کس استاد کو آپ نا پسند کرتے تھے اورکیوں؟

یہ ایسے سوالات ہیں جو معلم میں ایک شعور سا پیدا کرتے ہیں کہ بچوں کو ایسا ماحول دینا چاہئے جیسا ماحول وہ زمانہ طالب علمی میں چاہتے تھے یا اس کے پڑھنے کے لیے موزوں تھا۔ یہ سرگرمیاں نئے اساتذہ کو اچھی شروعات دیتی ہیں اور ان کو ایک اچھا معلم بننے کی سفر پر گامزن کر دیتی ہے۔

ڈاکٹر افضل بادشاہ اورمحمد یوسف
ابراہیم لنکن ( امریکہ کے سولویں صدر ) اپنے بیٹے کے معلم کے نام ایک خط لکھتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس خط کا ہر لفظ ہمارے والدین اور اساتذہ تک پہنچے۔میرا بیٹا آج سکول شروع کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ وقتی طور پراس کے لیے عجیب اور نیا ہونے والا ہے اور میری خواہش ہے کہ آپ اس کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔یہ ایک ایسا سفرہے جو اسے پورے براعظموں میں لے جا سکتا ہے اور تمام مہم جوئی جن میں شاید جنگیں، المیے اور دکھ شامل ہوں۔ اس زندگی کو جینے کے لیے ایمان، محبت اور ہمت کی ضرورت ہوگی۔تو پیارے استاد، کیا آپ براہ کرم اس کا ہاتھ پکڑیں گے اور اسے وہ چیزیں سکھائیں گے جو اسے جاننا ہوں گے – لیکن اگر آپ کر سکتے ہیں تو نرمی سے۔اسے سکھاؤ کہ ہر دشمن کا ایک دوست ہوتا ہے۔ اسے یہ جاننا پڑے گا کہ تمام مرد عادل نہیں ہیں اور یہ کہ تمام مرد سچے نہیں ہیں۔ لیکن اسے یہ بھی سکھا دو کہ ہر بدمعاش کے لیے ایک ہیرو ہوتا ہے اور ہر گھٹیا سیاستدان کے لیے ایک سرشار لیڈر ہوتا ہے۔اگر آپ کر سکتے ہیں تو اسے سکھائیں کہ کمائے گئے 10 سینٹ کی قیمت ایک ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔ سکول میں فیل ہونا نقل لگانے سے کہیں زیادہ عزت کی بات ہے۔اسے سکھائیں کہ کس طرح خوبصورتی سے ہارنا ہے اور جب وہ جیتتا ہے تو جیتنے سے لطف اندوز کیسے ہوناہے۔اسے لوگوں کے ساتھ نرمی اور سخت لوگوں کے ساتھ سختی کرنا سکھائیں۔ اگر ہو سکے تو اسے حسد سے دور رکھیں اور اسے خاموش ہنسی کا راز سکھائیں۔ اگر ہو سکے تو اسے سکھاؤ کہ جب وہ اداس ہو تو اسے کیسے ہنسنا ہے، اسے سکھاؤ کہ آنسوؤں میں کوئی شرم نہیں ہے۔ اسے سکھائیں کہ ناکامی میں شان اور کامیابی میں مایوسی ہوسکتی ہے۔ اسے گھٹیا لوگوں کا مذاق اڑانا سکھائیں۔اگر  کتابوں کے عجائبات  ہیں تو اسے سکھائیں، لیکن آسمان پر پرندوں، دھوپ میں شہد کی مکھیوں اور سبز پہاڑی پر پھولوں کے انتہائی اسرار پر غور کرنے کے لیے بھی وقت دیں۔ اسے اپنے خیالات پر یقین رکھنا سکھائیں چاہے ہر کوئی اسے کہے کہ وہ غلط ہیں۔میرے بیٹے کو طاقت دینے کی کوشش کریں کہ وہ بھیڑ کی پیروی نہ کرے جب باقی سب ایسا کر رہے ہوں۔ اسے ہر ایک کی بات سننا سکھائیں لیکن اسے یہ بھی سکھائیں کہ وہ سچائی کے پردے پر جو کچھ سنتا ہے اس کو چھان لے اور اس کے ذریعے آنے والی اچھی چیزوں کو ہی لے۔اسے سکھائیں کہ وہ اپنی صلاحیتیں اور دماغ سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو بیچے لیکن دل اور روح پر کبھی بھی قیمت نہ لگائے۔ اسے بے صبر ہونے کی ہمت دو، اسے صبر کرنے دو کہ وہ بہادر ہو۔ اسے سکھائیں کہ وہ اپنے آپ پر اعلیٰ ایمان رکھےکیونکہ اس کے بعد وہ ہمیشہ بنی نوع انسان پر اورخدا پر اعلیٰ ایمان رکھے گا۔یہ حکم ہے استاد کا، لیکن دیکھیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں۔ وہ بہت چھوٹا معصوم بچہ ہے اور وہ میرا بیٹا ہے۔

 جب بچوں کی تربیت کی بات ہو تو  والدین کو ہر صورت تربیت حاصل کرنی چاہیے۔میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ بچوں کی تربیت نہیں بلکہ والدین کی تربیت ہے کیونکہ بچے وہی ہیں جو والدین ہیں۔والدین کو اس قسم کی سرگرمی کرنی چاہیے تاکہ ان کو معلوم ہو سکے که دراصل بچے چاہتے کیا ہیں۔ والدین کو تنہا بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ جب وہ چھوٹےتھے یا اس عمر میں تھے جس عمر میں اب اس کےبچے ہیں تو وہ کیا چاہتے تھے؟ والدین ایک لمحہ کے لئے تنہا خاموش بیٹھ جائیں اور آنکھیں بندکر کے اپنے دھندلے ماضی میں سے درج ذیل سوالوں کے جواب تلاش کریں۔ 

  •  والدین سے کس قسم کے رویه کی تواقع کرتے تھے؟
  • کیا چاہتے تھے کہ والدین ان کو لا کردیں؟
  • کس چیز سے خوش ہوتے تھے اور کس چیز سےپریشان؟
  • کس بات پر اپنے والدین کے قریب جاتےتھے اور کس بات پر دور جاتے تھے؟
  • والدین کے کس رویے سے نفرت کرتےتھے؟
  • والدین کی کن باتوں سے متاثر ہوتے تھے؟
  • والدین کی کن باتوں پر فخر کرتے تھے؟
  • والدین کی کونسی عادتیں  اکثر آپ کو یاد آتی ہیں؟

ان سوالوں کے جوابات کی الگ الگ فہرستیں بنائیں۔ یہ خوبیاں اور خامیاں اپنے اندر ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ ایسی تمام باتوں کوجن کو آپ اپنے بچپن میں اپنے والدین کی طرف سے ناپسند کرتے تھے ختم کریں اور ان ساری (درست) عادات کو اپنانے کی کوشش کریں جن کو آپ پسند کرتے تھے۔ یہ ایک ایسی سرگرمی ہے اگر آپ اس کو ٹھیک سے کرتے ہیں اور ٹھیک سے اپنی زندگی میں اپناتے ہیں تو آپ کا بچوں کی پرورش کا انداز مکمل طور پرتبدیل ہو جائے گا۔ آپ ایسے والدین بن جائیں گے جس پر بچے فخر کرتے ہوں اور اُن کی کہانیاں دوسروں کو سناتے ہوں۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے