اپنی ذمہ داریاں بچے کو نہ دیں

اپنی ذمہ داریاں بچے کو نہ دیں

صبح صبح  ساڑھے پانچ بجے کی پہلی گاڑی لی اور  مکتب کی طرف روانہ ہوا۔   کوئی نوجوان ڈرائیور  گاڑی چلا رہا تھا، دوسری نشست پر پر دو اُستانیاں بیٹھی ہوئی تھیں جو میری طرح  اپنے مدرسوں کی طرف جا رہی تھیں۔ ایک کم عمر کا بچہ جو بمشکل نو دس سال کا ہوگا استانی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میں یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید اس کا فرزند ہے اور ساتھ جا رہا ہے لیکن جب بچے نے کرایہ اِکٹھا کرنا شروع  کیا تو تب معاملہ سمجھا کہ اس کےکندھے تو میرے کندھوں سے کہیں بھاری ہیں اور وہ مجھ سے بہت بڑا ہے۔

ایک پانچویں  جماعت  کے بچے کو اگر  جمع  منفی کا تھوڑا سا اُلجھا ہوا سوال دیں تو شاید وہ  نہ کر سکے۔ میں مسلسل اس بچے کو دیکھ رہا تھا۔ میری فکر کے دائروں میں وہ رچ بس سا گیا ۔  انتہائی مہارت کے ساتھ وہ کرایه لیتا رہا اور  اسی عمر میں حساب کے پیچیدہ  اُلجھنیں حل کرتا رہا۔  ہر مسافر سے کرایہ لینا، الگ سے اس کے بقایا جات ذہن میں رکھنا ، کرایہ سے پوری سواریوں کا اندازہ لگانا ، نئی سواریوں کو تلاش کرنا وغیرہ  وغیرہ۔ وہ سب کچھ بڑی مہارت سے کر رہا تھا۔

اچانک ایک سواری آئی ۔ اس نے بچے کو استانی کے ساتھ بٹھایا  اور خود دروازے کی طرف  بیٹھ گیا۔ بچے نے اُٹھنے کی کوشش کی تاکہ وہ دروازے کی طرف بیٹھ سکے کیوں کہ کو وہ اس وقت  کا ذمہ دار شخص تھا۔  جیسے ہی اس نے اٹھنے کی کوشش کی ڈرائیور اپنی نشست سے اٹھا اور پورے زور سے بچے کو تھپڑ دے مارا۔ ڈرائیور نے بچے کو اس زور سے مارا کہ پوری گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔ بچہ پھوٹ پھوٹ  کر رونے لگا۔ اس کے معصوم سے پیارے چہرے پر آنسو بہنے لگے۔  میرے سمیت بھری گاڑی میں کسی کو اتنی بھی جرات نہ ہوئی کہ ڈرائیور سے پوچھتا کہ تم نے کیا کیا اور کیوں کیا؟   یہ کسی بھی لال کا نو سال کا بچہ تھا اور اس کو انسان ہونے کا یہی احساس دلایا جارہا تھا۔ ایک بات یاد رکھیں کہ بچے سب کچھ بھول جائیں گے لیکن آپ نے انہیں کیسے محسوس کرایا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

ڈاکٹرافضل بادشاہ اور محمد یوسف

یہ تو سڑک کی رودادتھی۔ ایک  مکتب  کی مثال دیکھتے ہیں۔  مکتب  میں بچوں کی یونیفارم پر سختی کی جاتی تھی۔ صبح جو  جماعت  میرے پاس آتی تھی اس میں ایک بچہ ایسا تھا جو جرسی کے بغیر آتا تھا۔ اس کی قمیض  پھٹی ہوئی اور اکثر میلی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ باقی سارے بچے مکمل طور پر یونیفارم میں آتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی خود اعتمادی بہت کم تھی۔  حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ بچے کے والد کے ٹرک چلتے تھے۔ وہ ٹرانسپورٹر تھا لیکن اپنے بچے پر خرچ نہیں کر رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تربیت بہت بُری طرح سے متاثر ہورہی تھی۔

اس دنیا کو بچے کی نظر سے دیکھیں تو یہ بہت خوبصورت ہے۔ ماں باپ کی محبتیں ہیں۔ وہ عمر ہے جس میں کوئی خواہش ٹالی نہیں جاتی کوئی سخت بات کہی نہیں جاتی۔ آج بچے تو ہیں مگر بچپن نہیں ہے۔ ہم نے ان کے بچپن کو مار دیا ہے۔ یا تو چار سال میں ہی بچے کو مزدوری پر لگا دیا  جاتاہے یا پھر تین سال میں ہی اس کے وزن سے دُگنا کتابوں کا بسته اُسے تھما دیا جاتاہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ آج کا پانچ سال کا بچہ 40 سال کے فرد سے کہیں بڑا ہے اور اس کے کندھوں پر ایک فردسے کہیں زیادہ بوجھ ہے۔

  میں نے کئی سارے ایسے والدین دیکھے ہیں جو معاشی طور پر بہت خوشحال ہیں لیکن وہ اپنے چھوٹے بچوں کو پڑھانے کے بجائے کام پر لگا دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خاموش عمل ہے جو ہمارے معاشرے میں نہ صرف  ناانصافیوں کا ذمہ دار ہے بلکہ مزدورکے خاندان کو مزدور اور ڈرائیور کے خاندان کو ڈرائیور تک محدودرکھتاہے اور یہ لمحہ فکریہ ہے۔ 

جب بھی بچوں کے حوالے سے سوچیں تو صرف یہ  نہ سوچیں کہ بچے کے لیے کیا اچھا اور کیا بُرا ہے؛  وہ اس عمر  میں کیا محسوس کرتے ہیں وہ کیا سوچتے ہیں اس سے زیادہ اہم ہے۔ آپ نے ان کو ایک اچھا احساس دلانا ہے، ان کے ساتھ اچھی یاداشتیں بنانی ہیں۔ چاہے گھر ہے یا  مکتب  آپ بچے کو تبھی کچھ سکھا سکیں گے جب آپ ان کے جگہ پر جائیں گے، ان کو اچھا احساس دلائیں گے اور ایک مضبوط رشتہ قائم کریں گے۔ 

اگر آپ آنکھیں بند کرکے اپنے بچپن میں جائیں تو آپ کو ایک ایک بات، ایک ایک لمحہ یاد آتا ہے جس وقت آپ کے بڑوں نے آپ کو اچھا احساس دلایا۔ آپ کو کہیں باہر لے کر گئے یا پھر آپ کو خاص سمجھا۔ اس لئے اگر آپ نے اپنے بچوں کی یادوں میں رہنا ہے تو ان کو اچھا احساس دلانا ہوگا۔ 

آپ امیر ہیں یا پھر غریب، بچے کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اُن کے لئے اہم بات یہ ہے کہ آپ ان کو کیسے محسوس کرواتے ہیں۔

بچوں کے ساتھ ان کے پسندیدہ کھیل کھیلیں۔ یہ بچے کے دماغ کے بننے میں جہاں مدد کرتا ہے وہی اس سے والدین اور بچے کے درمیان مٖضبوط رشته  بنتا ہے اور بچوں میں اچھا احساس پیدا کرتا ہے۔    

 ایک کاغذ لیں اور اس میں دو کالم بنا لیں۔ ایک کا نام "اچھی یادیں” اور دوسرے کا نام "بری یادیں” رکھیں۔  ایک لمحہ کے لیے آنکھیں بند کر کے سوچیں کہ بچپن کی وہ کون سی یادیں ہیں جو بُرا احساس دلاتی ہیں اور آپ کا خیال ہے  کہ یہ کسی کے ساتھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جتنی یادیں آتی ہیں انہیں بُری یادوں والے کالم میں لکھیں۔ دوسری دفعہ دوبارہ آنکھیں بند کریں اور سوچیں کہ وہ کون سی یادیں ہیں جو آپ کو ایک اچھا احساس دلاتی ہیں۔ اس کو اب اچھی یادوں کے کالم میں لکھ لیں۔ کوشش کریں کہ ان کو اپنے بچوں کی پرورش میں شامل کریں۔ 

اچھی یادیںبُری یادیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے