مکتب  کا انتخاب احتیاط سے کریں

 مکتب  کا انتخاب احتیاط سے کریں

ایک ڈرائنگ کے استاد بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ اس نے نر سری کے بچے کو کاپی پر کچھ عجیب تصویر کھینچتے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ؛

بیٹا! کیا بنا رہے ہیں؟

 بچہ معصومیت سے جواب دیتا ہے  کہ "میں خدا کی تصویر بنا رہاہوں”۔ 

استاد اس سے پوچھتا ہے کہ بیٹا خدا کو تو کسی نے دیکھا ہی نہیں توآپ کیسے اس کی تصویر بنا سکتے ہیں؟  

بچہ بہت دلچسپ جواب دیتا ہے کہ 

"سر آپ اگر تھوڑا سا انتظار کرلیں گے تو آپ دیکھ لیں گے کہ خدا کیسے دکھتا ہے۔”

یہ ایک نرسری جماعت میں آنے والے بچے کی تخلیقی صلاحیت ہے کہ اس نے اپنے تخیل میں خدا کی بھی تصویر بنائی ہوئی ہے۔

ایک دن میں کچھ نئے چھوٹے بچوں میں تھا جنہوں نے ابھی  مکتب  جانا شروع نہیں کیا  تھا۔ جب وہ مجھ سے تھوڑے گُھل مل گئے تو انہوں نے سوال پر سوال پوچھنا شروع کیے اور اتنے سوال پوچھے کہ مجھے بھی اُلجھا دیا۔ چاچو آپ کا نام کیا ہے؟ چاچو آپ کا گھر کدھر ہے؟ چاچو آپ کے گھر کا رنگ کیا ہے؟ چاچو یہ گاڑی آپ چلاتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح میری ایک چھوٹی بھتیجی ہے جو بہت سوال کرتی ہے اور میرے ہر جواب سے خود ہی نیا سوال بنا لیتی ہے۔  جب بچے مجھ سے اس قسم کے سوال پوچھتے ہیں تو میں یہی سوچتاہوتا ہوں کہ ہمارا نظام تعلیم کتنی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک بچوں کو لیتا ہے اور جب وہ ان اداروں سے نکلتے ہیں تو ایک سوال نہیں پوچھ سکتے اور نہ ہی تخلیق کر سکتے ہیں۔

بچے کو داخل کرنے سےپہلےآپ اس مکتب  میں کیا دیکھنا چاہیں گے؟

تعلیمی اداروں میں تخلیقی صلاحیتوں کے ختم ہونے کی بہت سی  وجوہات ہیں لیکن اس میں ایک بڑی وجہ اداروں کا خوف بھی ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب مجھے پہلی جماعت میں داخل کروایا جارہا تھا تو میرے دل میں ایک خوف پیدا کیا گیا تھا کہ اساتذہ  بہت مارتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک چھوٹا بچہ وہاں کیا پوچھے گا جب اس کو پتہ ہوگا کہ اسے مار پڑنی ہے۔ اور یہ روایت ابھی بھی نہیں بدلی۔ ایک دفعہ ایک بزرگ اپنے پوتے کے ساتھ ہمارے گھر بیٹھے ہوئے تھے ۔  جب چھوٹا بچہ میرے ساتھ ہاتھ نہیں ملا رہاتھا تو اس کا دادا اسی طرح ہی اس کو ڈراتا ہے کہ استاد کے ساتھ ہاتھ ملاؤ ورنہ  مکتب  میں آپ کو مارے گا۔ 

حال ہی میں جب میں اس کتاب کو آخری مراحل میں سے گزار رہا تھا تو ایک دادا پنے چھوٹے  پوتے کے ساتھ مکتب آیا۔  جماعت کے سامنے بچے سے کہتا ہے کہ؛” جب تم مکتب داخل ہوگے تو  استاد تمہیں بہت ماریں گے۔”  میں مسکرایا، بچے کے پاس گیا، اسے اپنی بانہوں میں لیا اور پیار سے کہا، "نہیں بیٹا!” اساتذہ بچوں کو نہیں مارتے۔

اب تو اداروں میں مار پر پابندی ہے لیکن اس کے ثمرات ہمارے معاشرے تک آسانی سے نہیں پہنچ سکتے کیونکہ یہ پیچیدہ عوامل سے جڑا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ اگر والد کو پتہ ہی نہیں میرا بچہ کہاں ہے؟ کیا کرتا ہے؟  مکتب  جاتا ہے یا نہیں؟ مطلب وہ ادارے کے ساتھ تعاون نہیں کرتا تو لازم ہے صرف ادارہ اس کو کبھی بھی ٹھیک نہیں کر پائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب استاد کو (ایک  جماعت  میں ) 70-80 بچےپڑھانے کے لئے دئے جائیں گے تو ظاہر ہے کہ اس نے خوف  پیدا کر کے ہی بچوں کوصرف چپ کروانا ہے پڑھائی تو ثانوی رہ جاتی ہے۔ اس سے بھی ایک ضروری بات یہ ہے کہ امتحانی ادارے (امتحانی بورڈ) اگر بچے کو رٹی رٹائی چیزوں کے لیے آزماتے ہیں اور اسی پر اساتذہ و اداروں کو سزائیں اور جزائیں ملتی ہیں توبچوں کو اسی امتحان کے لیے تیار  کیا جائے گاتخلیقی و تجزیاتی سوچ کے لیے کیوں؟۔

اگر ہمیں اپنی نسلوں کو تخلیق کار دیکھنا ہے کہ وہ تخلیق کریں اور سائنس اور ادب میں نام پیدا کریں تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام بالخصوص امتحانی نظام پر کام کرنا ہوگااور اس کو بہتر بنانا ہوگا۔خدانخواستہ اگر ہم ایسا کچھ نہیں کرپاتے اور اپنے طلبہ کو ایک اچھا تعلیمی نظام نہیں دیتے تو ہم پی۔ایچ۔ڈی (ڈاکٹر) تو پیدا کرتے رہیں گے لیکن وہ ایک سوال تخلیق کرنے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔ 

بچے کے ہوم ورک کے حوالے سے یہ یقینی بنائیں کہ
بچے کو روزانہ کی بنیاد پر ہوم ورک دیا جاتا ہے۔
ہوم ورک بچے کی قابلیت کے مطابق ہے۔
ہوم ورک میں تخلیقی صلاحیتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔
آپ نے بچے کے لیے ہوم ورک کے لیے ضروری وسائل مہیا کی ہیں۔
بچے کے ہوم ورک کے لیے مناسب جگہ کا بندوبست ہے۔
ہوم ورک مکمکل ہونے کے بعد آپ اسے چیک کرتے ہیں۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے