بچوں کے ساتھ مضبوط رشتہ بنائیں

بچوں کے ساتھ مضبوط رشتہ بنائیں

ایک دفعہ میں اپنے بیٹے کو ساتھ لئے باہر  چہل قدمی کر رہاتھا۔ ایک جاننے والے کا گزر ہوا توکہنے لگا کہ افضل میں جب آپ کو باہر چہل قدمی کرتے دیکھتا ہوں تو آپ کا بچہ بھی آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔  مزید کہنے لگا کہ افضل میں اپنے بچوں کو بالکل بھی نہیں اُٹھاتا۔ کل جب وہ بڑے ہوجائیں اور میرا خیال نہ رکھیں تو کم از کم مجھے افسوس نہ ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کی سوچ کے ساتھ بچوں کی مثبت پرورش ممکن ہے؟ میرا یہ ماننا ہے کہ اگر بچوں کی کل کی یادوں میں رہناہے تو آج آپ کو ان کی زندگیوں میں رہنا پڑے گا۔  بچوں کی اس طرح پرورش کریں کے وہ بڑے ہوکر لوگوں کوآپ کی کہانیاں سنائیں۔ وہ آپ کواپنی دنیا مانیں۔

بچوں کو آپ تب درست کر پائیں گے جب آپ کا ان کے ساتھ مضبوط ربط ہوگا۔ ایک بہت بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ جتنا سخت رہیں گے اتنے ہی بچے اچھے ہوں گے جو کہ مکمل طور پرغلط ہے۔ اس سے والدین اور بچوں کے درمیان رشتہ کمزور ہوتا جاتا ہے اور بچے باہر کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ بچوں کومثبت وقت دیں۔ آج کل والدین بچوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور دونوں مل کر اسکرین دیکھتے ہیں۔ اور اگر والدین کچھ بڑھ کر کرنا چاہتے ہیں تو بچے کی پسندیدہ پروگرام یا پھر کارٹون لگادیتے ہیں۔ بار بار ایسا کرنا انتہائی غلط ہے۔ یہ مثبت وقت نہیں ہے۔ مثبت اورمثالی وقت یہ ہے کہ بچے کو اپنے ساتھ بٹھائیں۔ انہیں اس کی عمر سے مطلقه اور ان کے پسندیدہ اشیا کے متعلق کہانی سنائی، کوئی تخلیقی سرگرمیاں کروائیں۔

three wooden dinosaur
Photo by cottonbro studio on Pexels.com

بچے کو جب بھی وقت دیں ان کے ساتھ فعال رہیں۔ مثال کے طور پر ان کے ساتھ کوئی کھیل کھیلیں، گھر کے کام (ہوم ورک) میں مدد کریں۔  آپ بچے کے ساتھ مل کر اسکرین  دیکھیں گے تو وہ کوئی فعال وقت نہیں ہے بلکہ غیر فعال ہے۔   وہ وقت جو بچے کے ساتھ  فعال طور پر گزارا گیامعیاری وقت کہلاتا ہے۔ 

میرا دو سال کا بچہ ہے اس نے مشکل سے بولنا شروع کیا ہے۔ اس کی پسندیدہ اشیا میں سے چند ایک گاڑیاں، ہوائی جہاز، کچھ جانور، کچھ پرندے اور مچھلیاں ہیں۔ وہ اسکرین پر کارٹون بھی انہیں کے دیکھتااور پسند کرتاہے۔ وہ ضد کرتا ہے کہ وہ اپنے وقت سے زیادہ کارٹون دیکھے اور ٹیبلیٹ اس کے پاس رہے۔ ٹیبلیٹ لینے پر وہ روتا ہے۔ میں اس کو سمجھاتا ہوں کہ اسکرین کا وقت ختم ہے (بچے کے سطح کے انداز کے اندر)  ۔ میں اس کو گو د میں بٹھاتا ہوں۔ جو اس کا پسندیدہ جانور ہے اُس سے کہانی کاآغاز کرتا ہوں۔ اس کی آواز نکال کر اسی کی توجہ لیتا ہوں۔ کچھ ہی لمحو ں میں بچہ چپ ہو جاتاہے اور کہانی میں میرے ساتھ ہوتا ہے۔ اب وہ خود کہانی کی رہ نمائی کرتاہے۔ کبھی وہ اس کو مچھلی سے شروع کرتا ہے، کبھی جہاز سے تو کبھی کسی پرندے سے۔ اس کا بابا اس کے پہلے لفظ سے کہانی کا نیا پردہ اُٹھاتا ہے۔  

بچوں کی پرورش کے حوالے سے غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو درست کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل ایسا نہیں ہے۔ بچے تو آپ کے نقال ہیں۔ یہ عمل اپنے آپ سے شروع کیا جاتا ہے۔ آپ اپنے ہر قول و فعل کوا ایسا کر دیتے ہیں جس طرح آپ کل اپنے بچے کودیکھنا چاہتے ہیں۔  

بڑوں کی توجہ بچوں کی دولت ہے۔ بچے اس معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ والدین صرف ان کے رہیں ان کو توجہ دیں، ان سے باتیں کریں۔ توجہ کا بچوں کی زندگی میں اتنا اہم حصہ ہونے کے باوجود اگر والدین بچوں کو توجہ نہیں دیتے، ان کی کہانیاں نہیں سنتے  تووہ بُرامحسوس کرتے ہیں۔ جتنی محبت و توجہ کے ساتھ آپ بچوں کی پرورش کریں گے وہ اتنے ہی بہترین انسان بنیں گے۔ کبھی  کبھی  بچے برُا رویہ اس لئے اپناتے ہیں کہ وہ والدین کی توجہ چاہتے ہیں۔ ایسے میں ان بچوں پر واپس چِلانا نہیں چاہیے۔آپ اس خاص وقت کو نظر اندازبھی کر سکتے ہیں تاکہ بچے اس عادت کو یا عمل کو توجہ کے ساتھ نہ جوڑ دیں۔

کیا آپ نے توجہ دی ہے کہ جب کبھی آپ فون پر بات کرتے ہیں یا پھر کسی اور کو وقت دیتے ہیں تو بچہ آپ کی توجہ  حاصل کرنے کے لئے مختلف قسم کی حرکتیں کرتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے