غربت کے چکر کو توڑیں

غربت کے چکر کو توڑیں

سڑک سے کچھ فاصلے پر ویرانے میں جہاں دور دور تک کوئی گھر نہ تھا، پگڈنڈی کے کنارےایک چھوٹا سا جھونپڑا تھا۔ اس کا آدھا حصہ گراہوا تھا اور آدھی چھت ابھی بھی دو دیواروں پرقائم تھی۔ میں پچھلے حصے سے (جو حصہ گرا ہوا تھا) جھونپڑی میں داخل ہوا۔ جس حصے کی چھت ابھی  باقی تھی اس میں ایک صندوق اور کچھ برتن پڑے ہوئے تھے ساتھ ہی ایک  بالٹی اور تھال جس میں دُھلنے کے لیے کچھ کپڑے رکھےہوئے تھے۔ جھونپڑی کےصحن میں ایک  چھوٹا  درخت اورجھُلستی دھوپ سے بچاؤکے لیے ایک چھوٹا سا چھپر اور  اس میں دو تین چھوٹی چا رپائیاں پڑی  ہوئی تھیں۔

چھپرتلے دو تین بکریاں بندھی ہوئی تھیں اور ایک بوڑھی عورت درخت کے نیچے سر جھکائے کسی گہری سوچ میں مگن بیٹھی تھی۔ میں ماں جی سے ملا، اس سے خاندان کے افراد کے بارے میں پوچھا  ؟ اس نے بتایا کہ اس کا خاوند فوت ہو چکا ہے۔ بڑا بیٹا جس کی شادی  ہو چکی ہے باہر ہی رہتا ہے،اور انہیں کچھ نہیں بھیجتا۔ اس نے  بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس کا ایک چھوٹا دوسرا بیٹا بھی ہے جو مکتب پڑھنے جاتا ہے۔

میرا دل رو رہا تھا، ایک ماں کس حالت میں اپنی زندگی گزار رہی  تھی؟ میں اپنا وہ  دورہ کبھی نہیں بھول سکتا۔میں سیلاب ڈیوٹی پر تھا اور پہلے سے کیے ہوئے جائزہ کو دوبارہ سے ان لائن کرنا تھا۔   یہ لمحہ بھی میرے ان لمحات  میں سے ایک تھا  جہاں جہاں پر میری زندگی پلٹی ہے۔

girl wearing knitted sweater standing outside with leaves falling
Photo by JoEllen Moths on Pexels.com

 جماعت میں اکثر میں طلبہ سےبہن بھائیوں کا پوچھتاہوتاہوں تاکہ اگر کوئی بچہ خاص طور پر کوئی بچی مکتب داخل نہیں ہے تو اسے داخل کرایا جاسکے۔ ایسے ہی  ایک دن جماعت میں  بچوں سے معلومات لے رہا تھا۔ ایک بچے سے معلومات لیتے ہوئے مجھے لگا کہ کہ شاید وہ اسی ماں کا بیٹا ہے ۔ ہاں!  یہ اسی ماں کا ہی بیٹا تھا۔ وہ ماں جس کا کوئی سہارا ہی نہیں تھا، جس کا پورا سرمایا ایک گرا ہوا جھونپڑا ، ایک صندوق، کچھ برتن اور دوتین بکریاں تھیں۔ اس حالت میں بھی وہ اپنے بیٹے کو پڑھا رہی تھی اور اپنا سہارا سمجھ رہی تھی۔

اپنے بچوں کو سکھائیں کہ درد زندگی کا ایک ناگزیر پہلو ہے اور ہم اس کا سامنا دو الگ الگ طریقوں سے کرتے ہیں۔ پہلا درد خوشی سے برداشت کیا جاتا ہے،اپنی پسند کی زندگی بنانے کے لیے ۔ یہ مکمل طور پر ذاتی فیصلہ ہوتا ہے۔ دوسرا درد معاشرے کی طرف سے مسلط کیا جاتا ہے، رضاکارانہ طور پر درد کا راستہ نہ چُننے کی وجہ سے (زندگی بنانے کے لیے)۔ اب انتخاب ان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کون سا درد برداشت کریں گے۔

کاش والدین یہ جانتے ہوتے! بچے،مکتب اور والدین

ایسے حالات میں بچوں کو مکتب بھیجنا ہی بہت بڑی قربانی ہے۔ ایسےوالدین اپنے بچوں کے سہارے جی رہے ہوتے ہیں۔ مکتب سے کئی ایسی مائیں رابطہ میں رہی ہیں جن کے بچے ہی ان کا واحد سہارا تھے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ اپنے حالات بچوں کو بتائیں۔ ان کو باور کرائیں کہ آپ ان سے بہت محبت کرتے ہیں اور یہ کہ وہ آپ کا سہارا ہیں۔ یہ حالات اور والدین کی حوصلہ افزائی ان کو اس قابل بنائے گی کہ وہ اپنے درد کو کامیابی میں بدل ڈالیں۔ 

کیا آپ نےبچے کو کوئی مقصد دیا ہوا ہے؟ اور  بچےکو اس کے لئے کیسے تیار کر رہے ہیں؟

سرکاری اداروں میں صرف 20 روپے فیس لی جاتی ہے۔ اس کے باوجود بھی میرے پاس ایسے والدین آتے ہیں جو 20 روپے مہینا کی فیس معاف کرانے کی گزارش کرتے ہیں۔ وہ والدین جو 20 روپےماہانہ فیس ادا نہیں کر سکتے وہ کیسے اپنے بچوں پر توجہ دے سکتے ہیں؟ ایسے والدین کے لیےلازمی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ مضبوط ربط رکھیں۔ انہیں اپنے حالات کے  اندر اچھا احساس دلائیں، اپنے حالات کے بارے باور کرائیں،  انہیں خواب دیں تاکہ وہ محنت کر کے اپنے درد کے بدلے کامیابی لے سکیں۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے