بچوں کو خطرناک حالات و عادات سے بچائیں

بچوں کو خطرناک حالات و عادات سے بچائیں

 ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بدلتے ہوئے منظر نامے کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کریں کہ بچے محفوظ ہیں اور اچھے شہری بننے کے لیے انہیں ضروری مہارتیں دی جارہی ہیں۔ بچوں کو صحت مند عادات، حفاظت، اور ڈیجیٹل خواندگی کے بارے میں سکھانے سے انہیں خطرناک عادات، دھونس اور دیگر خطرات سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ بچوں کو خطرناک اور نقصان دہ رویوں سے بچانے میں مدد کرنا ضروری ہے اور انہیں صحیح رہنمائی اور مدد فراہم کرنے سے بچے پراعتماد، ذمہ دار اور کامیاب افراد بن سکتے ہیں۔

بچوں کی حفاظت کریں

جب بھی بچوں کی تربیت کی بات کی جاتی ہے توان کی بُرے ماحول سے حفاظت کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی حالانکہ بچے خطرات کا ادراک نہیں رکھتے اور جلدی حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بطور والدین یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ بچے سے متعلقہ تمام پوشیدہ خطرات (گھر اور باہر) کو سمجھیں اور بچے کو ان خطرات کے لیے تیار رکھیں۔ بچے اس راستےپر پہلی دفعہ چل رہے ہیں لیکن ہم نے اس راستے پر چل کرزندگی گزار ی ہے اور ہمیں ان خطرات کا اچھی طرح سے معلوم ہے اور یہ بھی کہ ہم اپنے بچے کو ان خطرات میں سے کیسے نکال سکتے ہیں۔ یہ خطرات محدود نہیں ہیں لیکن ان کے نمونے (Pattern) کوسمجھا جا سکتا ہے اور بچے کو اس کے لیے تر بیت دی جا سکتی ہے۔ 

گھر میں بچے کے لیے کیا خطرات ہو سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر بجلی اور گیس خطرہ ہیں۔ ایک مکمل فہرست بنائیں اورخطرات کی نوعیت کے حوالے سے ترتیب دیں۔  آپ بچوں کوان خطرات سے کیسے محفوظ رکھیں گے؟   

آپ اکثر بچوں کے بارے میں بہت بُری قسم کی خبریں سنتے ہیں۔ ایسی خبریں جس سے دل پھٹتا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو پہلے سے تربیت دیں کہ والدین کی غیر موجودگی میں کس سے ملنا ہے کس سے نہیں؟ کس کے قریب جا سکتے ہیں کس کے نہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اس بات کی تربیت دیں کے وہ باہر کس موڈ (Mood) میں رہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی انجان  یا کوئی بھی جاننے ولا غلط طریقے سے ان کو چھوتے ہیں تو وہ مدد کے لیے چلائیں وغیرہ۔ 

 جب میں یہ کتاب لکھ رہا تھا تو سوشل میڈیا پر پڑوسی گاؤں کی چار  پانچ سالہ بچی کی گم شدگی کی خبرچلتی ہے جو کہ  مکتب سے واپسی پر گھر نہیں پہنچتی۔ پورا گاؤں اسے تلاش کرتا ہے اور جب شام تک کوئی سراغ نہیں ملتا تو پولیس کو اطلاع دی جاتی ہے۔ اگلے دن شک  پڑنے پر چچاکے گھر کی تلاشی لی جاتی ہے۔ بچی کا مردہ جسم ایک ڈرم سے ملتا ہے جو کہ جادو ٹونہ کے لیے قتل کر دی گئی تھی۔ اس قسم کےبڑے درد ناک واقعات بچوں کے ساتھ ہوتے  ہیں اوردنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ اس کے لیےضروری ہے کہ بچوں کی خود سے حفاظت کی جائے اور عمر کے ساتھ ساتھ انہیں اس قسم کے بُرے واقعات کے لیے تربیت دی جائے۔ 

کیا آپ بچوں سے ہونے والے زیادتیوں کے بارے  پہلے سے جانتے ہیں؟ آپ اپنے بچے کی حفاظت کیسے کریں گے؟

اسی طرح ہم بچوں کو زندگی کے لیے تیار کرتے ہیں۔ انہیں اچھے اداروں میں پڑھاتے ہیں۔ لیکن کیا آپ کو یاد پڑتا ہے کہ آپ نے کبھی  اتنی توجہ ان کی صحت و خوراک پر دی ہو۔ ہم جو کچھ اپنے معدے میں اُتارتے ہیں ہمارا جسم و دماغ اس کے مطابق کام کرتا ہے۔ ہمارا بچہ بہت ہی اچھے ادارے میں پڑھتاہو، بہت ذہین ہو، اپنا پورا وقت مطالعہ کو دیتا ہو لیکن مہینے میں وہ ایک دفعہ بیمار پڑتا ہو اور اس کے دو تین دن ضائع ہو تے ہوں۔ ایسے  حالات میں پہلے والی محنت کی اہمیت نہیں رہتی۔  

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے