بچوں کو تناؤ واضطراب سے  نمٹنا سکھائیں

بچوں کو تناؤ واضطراب سے  نمٹنا سکھائیں

مکتب میں ایک طلاق یافتہ والدہ کا بچہ پڑھتا تھا۔ والدہ بہت بُرے حالا ت میں سے زندگی گزار رہی تھی اور مانگ کر گزارہ کر تی تھی۔ مانگ مانگ کر اُس نے بچے کو دہم کلاس تک پہنچایا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ بچے کی گھر میں تلخ کلامی ہوئی اور اُس معمولی سی تلخ کلامی کا یہ اثر ہوا کہ بچے نے خود کُشی کر لی۔ والدہ  تنہا  جس بیٹے کے سہارے مانگ کر زندگی گزار رہی تھی، وہ داغ جدائی  دے گیا۔ اسی طرح میرے ایک دوسرے شاگرد جو گھر میں موٹر سائیکل نہ ملنے کی وجہ سے خود کُشی کر گئے۔ میرے ایک  30سال کا جوان دوست بھی اسی قسم کے حالات کی وجہ سے اپنی جان دے گئے اور اپنے والدین کو ہمیشہ کا درد دے گئے۔ اس قسم کے واقعات بہت زیادہ ہیں جس میں سے میں نے صرف چند کا ذکر کیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تناؤ اور اضطراب بہت زیادہ ہے لیکن ہمیں اس سے نمٹنا نہیں آتا۔ خاص طور پر جوان ہوتے ہوئے بچے تو تناؤ اور اضطراب برداشت نہیں کرتے۔ 

تناؤ اور اضطراب زندگی کا ایک عام حصہ ہیں لیکن جب یہ بہت زیادہ ہو جاتے ہیں تو یہ بچے کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں یہاں تک کے اس کا اثر  اوپر ذکر کیےگئے واقعات کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ والدین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بچوں کو یہ سیکھنے میں مدد کریں کہ وہ صحت مند طریقے سے اپنے تناؤ اور اضطراب کو کیسے منظم کریں۔

والدین جو سب سے اہم کام کر سکتے ہیں کہ وہ بچوں کے ساتھ رابط رکھیں اور بچوں کو سنیں۔ جب بچہ تناو کا شکار ہو رہا ہو تو اسے سننے کے لیے وہاں موجود ہونا ضروری ہے۔  اسے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ چاہیے۔ ان کے جذبات کی توثیق کرنا اور انہیں بتانا کہ وہ جس طرح سے محسوس کرتے ہیں یہ ٹھیک ہے اور یہ زندگی میں ہوتا ہے۔ انہیں بتایا جائے کہ جب غصہ آئے تو اپنا دھیان کسی دوسری طرف لگائے۔ تھوڑی دیر تک وہ جگہ چھوڑ کر کہیں دوسری جگہ چلا جائے۔ اپنی دماغ کو کسی دوسری سر گرمی میں لگائے جیسے کہ وہ کوئی کھیل کھیلے۔    یہ سب  تناؤ اور اضطراب کو کم کرنے میں مدد کرنے کے بہترین طریقے ہیں۔

بچوں کی ضروری رہ نمائی کریں کہ بہادری یہ ہے کہ اپنے غضے اور جذبات پر قابو پاکر ان کو کامیابی کازینہ بنایا جا ئے نہ کہ اس کی سواری بن کر اپنے اور اپنے خاندان کی بربادی کا سامان کیاجائے۔

مکتب، بچے اور والدین

والدین بچوں کو مسئلہ حل کرنے کی مہارتیں سکھا کر ان کے تناؤ اور اضطراب پر قابو پانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ بچوں کو مسائل کی شناخت اور حل کرنے کا طریقہ سکھانا انہیں اپنے تناؤ اور اضطراب کو بہتر طریقے سے سنبھالنے میں مدد دے سکتا ہے۔


بچوں کو زندگی کی تیاری کے لیے زندگی کے ہنر سکھانا ضروری ہے۔بچوں کو ان کے عمر کے مطابق گھر کی ذمہ داریاں دینی چاہییں تاکہ وہ ذمہ دار شہری بن سکیں۔ بچوں کو تنازعات کے حل اور جدید زندگی کی مہارتیں سکھانے سے انہیں مستقبل میں زیادہ خود مختار اور کامیاب بننے میں مدد مل سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے