مکتب (سکول) سے انکار کی وجہ تلاش کریں

  مکتب (سکول) سے انکار کی وجہ تلاش کریں

میں جب کبھی صبح پرائمری حصہ  جاتا ہوں تو بہت سے والدین کو دیکھتا ہوتا ہوں جو روتے ہوئے بچوں کو کھنچ کر مکتب لا رہے ہوتے ہیں۔ بچے چلا رہے ہوتے ہیں اور مکتب نہ جانے کی ضد کرتے ہیں لیکن والدین اپنی وراثتی طریقہ کا استعمال کرتے ہوئے آمرانہ انداز  سے انہیں مکتب پہنچاتے ہیں۔ وہ  مکتب نہ جانے کی وجہ کو تلاش نہیں کرتے۔ اس سے بچے کا دل ٹوٹے گا اور وہ کبھی  شوق سے مکتب نہیں جا پائے گا۔ 

بچے اکثر  مکتب  جانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر  ابتدائی جماعتوں میں نئے داخل شدہ بچے۔ ایسے حالات میں آپ کاصرف ایک ہی مقصد ہوناچاہیے کہ آپ بچے کے ساتھ اچھی طرح سے جُڑ جائیں اور وجہ جاننے کی کوشش کریں جس کی وجہ سے وہ  مکتب  سے انکار ی ہے۔ ایک بات یادرکھنےوالی ہے کہ بچے کبھی بھی بغیر کسی وجہ کے مکتب  جانے سے انکارنہیں کرتے۔ اگر وہ انکار کررہے ہیں تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے کہ  بیماری،  گھر کے کام کا نہ ہونا ، مکتب  کے ضروری سامان کا نہ ہونا,  پہلے غیرحاضریاں کر چکاہونا، استادکا رویہ ٹھیک نہ ہونا اور  یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرےبچے اس کو تنگ کرتے ہوں یا پھر اگر بچہ  پیدل  مکتب  جاتا ہے تو راستے کے کچھ مسائل ہوں۔ 

ایک والد اپنے بچے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ  وہ  ذہین اور محنتی بچہ تھا۔ میٹرک جماعت پاس کرنے کے بعد انہوں نے اُسے مختلف کالجز میں داخل کرایا۔ لیکن وہ کسی بھی کالج میں پڑھنے پر راضی نہ ہوا۔ والدین اس کے بارے میں بہت پریشان تھے کہ بچہ ضائع نہ ہو جائے۔  آخر میں وہ ماہر نفسیات کے پاس جاتے ہیں۔ ڈاکٹر معمولی سی دوائی دیتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد بچہ خود ہی اپنی مرضی سے کالج میں داخلہ لیتا ہے اور محنت اور لگن سے پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔

کیا آپ نے بچپن میں کبھی مکتب جانے سے انکار کیا؟  انکارکی کیا وجوہات تھیں؟

آپ کی کامیابی تب ہے اگر آپ بچے سے مسئلہ کو جان پائیں اور پھر اس کو حل کر پائیں۔ ایک ایسے ہی والد کو( جو کہ خود استاد تھے) سنا کہ جب اُس کے بیٹے نے صبح  مکتب  جانے سے انکار کیا تو اس نے کہاکہ ٹھیک ہے بیٹا آپ آج  مکتب  نہ جائیں– گھر رہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس سے بات کرنی شروع کی کہ  مکتب  نہ جانے کی اصل وجہ کیا ہے۔ بیٹے نے تھوڑی دیر تک بتا دیا کہ جماعت میں ایک بچہ اُسے تنگ کرتا ہے۔استاد اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے بچے سے پوچھتا ہے–  بیٹا کیوں نہ ہم  مکتب چلےجائیں اور آپ کے استاد اور بچے سے مل آئیں۔ بچہ  راضی ہو جاتا ہے اور اُسی دن اپنےوالد کے ساتھ ہی  مکتب چلا جاتاہے۔ 

ایسے حالات میں سب سے اہم اور فوری کام اصل مسئلہ  تک جلد سے جلد پہنچ کر اسے حل کرنا ہے۔ مسئلہ سمجھنے میں جتنی دیر ہوگی بچے کے لیے مکتب جانا اتنا ہی مشکل ہوتا جائےگا۔ جب آپ خود طالب علم تھےاورلمبی چھٹیوں کے بعد  مکتب  جاتے تھے تو یہ عام حالات سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا تھا۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے