زبان  (الفاظ) کا اثر

زبان  (الفاظ) کا اثر

الفاظ میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ یہ نفرت کے خلا کو پیدا اور موجودہ کو پُر کر سکتا ہے۔ یہ سب منحصر ہے کہ بولنے والا ان الفاظ کو کیسےاستعمال کرتا ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ بعض علاقوں کی بولیوں میں منفرد مٹھاس ہوتی ہے۔ وہ آپ کی زبان میں بات کرتے ہیں لیکن ان کے بولنے میں مٹھاس زیادہ ہوتی ہے۔ وہ بہت شائستگی سے بات کرتے ہیں۔ یہ لہجہ ضرورانہیں بزرگوں سے ورثے میں ملا ہوگا۔

ایک دفعہ مجھے ایک ٹرینر ملی جو تختہ سیاہ کے بارے میں بہت حساس تھی۔ وہ کہتی تھی کہ تختہ سیاہ کو بہت احتیاط سے استعمال کریں۔ اس بات کو صد فیصد یقینی بنائیں کہ  آپ جو لفظ لکھ رہے ہیں وہ درست ہے۔ اگر آپ بطور معلم ایک غلط لفظ تختہ سیاہ پر منتقل کرتے ہیں تو وہی غلطی نسلوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ والدین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر وہ غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں تو یہ ناگزیر ہے کہ بچے اسے سنجیدگی سے لیں گے ، والدین کی باتوں پر یقین کریں گے اور اسے اگلی نسلوں تک منتقل کریں گے۔

جب   میں مکتب  کا طالب علم تھا تو پڑھانے کے لیےاساتذہ  کم تھے۔ ثانویں حصہ میں ایک ہی استاد دوجماعتوں کو پڑھاتا تھا۔ نصاب مکمل پڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ امتحانات کی غرض سے آخری دنوں میں تکونیات (ٹریگنومیٹری) پڑھائی گئی۔ کہاں سے غلط مواصلات ہو ئی کہ  میں نے "تھیٹا” کی جگہ پر "سیٹا” سنا اور اسی کو رٹا لیا۔ اب جب کالج میں پڑھنے گئے تو سارے بچے "تھیٹا” پڑھیں اور میں "سیٹا”۔ یہ ایسی عمر ہوتی ہے کہ بچے سب کچھ رٹ لیتے ہیں اور پھر ان الفاظ اور رویوں کو بعد میں بدلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مجھے بھی خود کو درست کرنے میں وقت لگا۔  

میں جب  یہ یاداشتیں لکھ رہا تھاتو میرا بیٹا میرے ساتھ بیٹھا کھیل رہا تھا۔ مجھے ایک کال آتی ہے اور میں "ٹھیک ہے” کے الفاظ سے ختم کرتا ہوں۔ اگلے کئی منٹ تک میرا بیٹا جو کہ ابھی دوسال کا بھی نہیں ہوا دہراتا رہتا ہے۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔

کیا آپ کا بچہ کوئی نامناسب الفاظ استعمال کرتا ہے؟ اس نے یہ کہاں سے سیکھے؟

بچے کے ساتھ جس طرح بھی آپ بولتے ہیں یاپھر رو یہ رکھتےہیں یہ سب کچھ بچے کے ذہن میں محفوظ ہوتارہتاہے ۔ ایک بڑی ڈیٹا بیس بن رہی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ درست ہے یا پھرغلط ہے بچے کے ذہن میں کوئی ضابطے ابھی نہیں ہیں۔ لیکن جیسے جیسے یہ بچہ بڑا ہوتا ہے۔ اس کے دماغ میں ضابطے بننا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ فیصلہ کرتا ہےکہ کونسا شخص کیسا ہے۔کون اس کی محبت کے لائق ہے اور کون اس کی نفرت کا مستحق ہے۔

گھر میں اکثر مسائل ہوتے ہیں اوربڑے اپنے بچوں کے سامنے ان پر بحث کرتے ہیں۔ والدین بچوں کے سامنے جھگڑتے ہیں اور ایک دوسرے کی توہین کرتے ہیں۔ یہ سب بہت خطرناک ہے۔ چلو ایک لمحہ کے لئے مان لیتے ہیں کہ ہم بُرے ہیں لیکن ہمیں اس برائی کو کہیں نہ کہیں جا کر روکنا چاہیے اور اس برے رویے اور الفاظ کو آنے والی نسلوں تک منتقل نہیں ہونے دیناچاہیے۔ اگر ہماری ایک نسل اس عہد کے ساتھ جیتی ہے تو یقین کریں  آنے والی نسلیں جنت کا ماحول پائیں گی۔ 

میں چاہتا ہوں کہ بازار میں یا سڑک پر اگر دو لوگوں کے درمیان کوئی مسئلہ  یا اختلاف ہو اور وہ ایک دوسرے سے سخت بات کرنا چاہتے ہیں لیکن اچانک انہیں سامنے ایک انجان بچہ نظر آتا ہے۔ دونوں اس سوچ کے ساتھ خاموش ہو جاتے ہیں کہ یہ ہمارا مسئلہ اور رویہ ہے اور ہم اسے آنی والی نسلوں میں منتقل نہیں ہونے دیں گے۔

بحیثیت والدین آپ ضرور چاہتے ہوں گے کہ جب آپ صبح گھر سے نکلیں تو آپ کا بچہ آپ کو خدا حافظ کہے اور شام کو جب واپس آئیں تو خوش آمدید کہے۔ آپ کو گلے لگائے، پیار دے اور آپ کی دن بھر کی تھکن اور دفتر کے زہریلے ماحول کے اثر کو زائل کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ بھی بچے کے ساتھ وہی زبان استعمال کریں جس کی آپ توقع کرتے ہیں۔ اس وقت جب وہ بول نہیں سکتا اس کے ساتھ محبت کی یک طرفه زبان بولیں۔ جب وہ بولنے کے قابل ہوگا تو وہی شیرینی واپس لٹائے گا۔ 

اگر آپ کادوسال یا اس سےبڑابچہ ہے توکچھ دن تک اس کا باریکی سےجائزہ لیں۔ان الفاظ کا تجزیه کریں جو آپ کا بچہ استعمال کرتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ وہی الفاظ ہیں جو ان کے سامنے بار بار استعمال ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے