بچے بہترین نقال ہیں

بچے بہترین نقال ہیں

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ بچے اپنے اردگرد کے لوگوں، خاص طور پر اپنے والدین اور دوسرے بڑوں کے رویے کی نقل کرتے ہوئے سیکھتے ہیں۔ چھوٹی عمر سے بچے اپنی زندگی میں بڑوں کے قول و فعل کو دیکھتے اور جذب کر رہے ہوتے ہیں اور یہ ان کی پرورش پر دیرپا اثر ڈالتے ہیں۔ بحیثیت والدین یا پھر معاشر ے کے بڑے فرد کے، یہ ضروری ہے کہ ہم بچوں پر اپنے(ہمارے) اثرات کو پہچانیں اور اسے فائدے کے لیے استعمال کریں۔ بچوں کو صرف اچھے رویے کی اہمیت بتانے کے بجائے اپنے اعمال کے ذریعے ان رویوں کو  ان کے سامنے کر کے دیکھائیں۔  اپنے الفاظ  احتیاط سے منتخب کرنے اور ایک مثبت مثال قائم کرنے سے ہم بچوں کو وہ اقدار اور طرز عمل سیکھنے میں مدد کر سکتے ہیں جو انہیں زندگی میں کامیاب ہونے میں مدد فراہم کریں گے۔

بچے آپ کے رویے کے عکاس ہیں

ماہرینِ ابلاغ (Communication Skills) کہتے  ہیں کہ جب ہم کسی سے بات کرتے ہیں تو ہمارے الفاظ کا اثر 7 فیصد، لہجے کا اثر 38  فیصد اور ہمارے جسم کی حرکات وسکنات کا اثر 55 فیصد ہوتا ہے۔  ہمارے الفاظ میں اتنی طاقت نہیں ہوتی لیکن ہمارا کہنے کا انداز، جسم کے حرکات و سکنات اور چہرے کے تصورات اس میں معنی بھر دیتے ہیں۔  لہجہ،جسم کے حرکات و سکنات اور چہرے کے تصورات ہی سے اصل بات چیت ہوتی ہے۔ یاد رکھیں کہ بچے لہجے کے لحاظ سے بہت حساس ہوتے ہیں اس لیے ان  کے سامنے اپنا لہجہ، جسم کے حرکات و سکنات اور چہرے کے تاثرات  انتہائی شائستہ رکھیں نہیں تو وہ باہر وہی زبان استعمال کریں گے جو آپ گھر پر کرتے ہیں۔ بچہ کیسےبڑوں کا لہجہ نقل کرتا ہے، ایک مثال سے دیکھتے ہیں۔ 

 مکتب میں ایک ایسا بچہ تھا جو خود کو بادشاہ سمجھتا تھا۔ وہ بچوں کے ساتھ  یہاں تک کے اساتذہ کے ساتھ بھی اُلجھتا تھا۔  ایک دفعہ تو اس نے ایک معلم کو دھمکیاں بھی دیں کہ "میں  مکتب سے باہر تمہیں دیکھ لوں گا”۔ جب اس معاملے کو تفصیل سے دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کے گھر کا ماحول ہی ایسا ہے۔ گھر کے سارے افراد خود سر ہیں اور بے تاج بادشاہ ہیں۔ انہیں نہ تو اپنی عزت و مقام کا پتہ ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کی عزت کرنا جانتے ہیں۔ اس قسم کے ماحول میں بڑھنے والا بچہ بڑوں کو دیکھتا ہے کہ ان کے زندگیوں میں کوئی حدود نہیں ہیں۔  وہ کسی سے بھی کسی بھی قسم کے لہجے میں بات کر لیتے اور پھر اس پرفخر کرتے ہیں۔ تو بچہ بھی لازمی انہیں عادات کو نقل کرےگا چاہے کل اس کے خطرناک نتائج کیوں نہ نکلتے ہوں۔ 

آپ اپنے اردگر د کے بچوں کامشاہدہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ بچے وہی الفاظ اور لہجہ استعمال کرتے ہیں جو ان کے بڑے ان کے گھر میں استعمال کرتےہیں۔     

ہوتا یہ ہے کہ والدین بچوں پر غصہ کرتے ہیں اور اس غصه میں بچوں پر چلاتے ہیں۔ یاد رکھیں! جب بھی آپ بچے سے بُرےرویے میں بات کرتے ہیں تووہ آپ کا وہی رویہ نقل کرتے ہیں نہ کہ وہ جو آپ کہہ رہے ہیں۔ بچوں سےاسی انداز میں بات کریں جس انداز میں آپ ان کو سننا چاہتےہیں۔ اگر آپ اسی انداز میں بچوں سے بات کرتے رہے تو آپ اور ان کے درمیان فاصلہ بڑھ جائے گا۔ وہ اپنے احساسات، جذبات اور تجربات آپ کے بجائے دوسرے لوگوں کے ساتھ شریک کرنا شروع کر ے گا۔ بچے کو اگر ہمیشه اپنے پاس رکھنا ہے تو اس کے ساتھ بہت ہی شائستہ لہجے میں بات کرنی ہے۔ 

یاد رکھیں!  جب بھی آپ بچے سےسخت رویے میں بات کرتے ہیں تووہ آپ کا وہی رویہ نقل کرتے ہیں نہ کہ وہ جو آپ کہہ رہے ہیں

positive diverse children taking photo on instant photo camera
Photo by Amina Filkins on Pexels.com

ہم وراثت میں ملے طریقے سے بچوں کی پرورش کرتے ہیں جو بچوں کو اپنی صیح اہمیت نہیں دیتی۔ بچہ کوئی غلطی کرتا ہے تو ہم غلط قسم کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں،  گالیاں دیتے ہیں، بد دعائیں دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب کچھ ہم اس لیےکر رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں اپنا بچہ پیارا ہوتا ہے۔ ہم اصل میں اپنا پیار جتا رہے ہوتے ہیں کہ بچے! تیرے بغیر میں کچھ نہیں ہوں، میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور تمہیں کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔  لیکن بچہ وہی سن اور سمجھ رہا ہوتا ہے جو آپ اپنے منہ سے کہ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے بچوں  سے پیار اورشائستگی سے مخاطب ہوں اور مناسب الفاظ کا استعمال کریں۔

بچوں کی پرورش کے حوالے سے اپنی ان عادات کی نشاندہی کریں جو نقصان دہ یا پریشان کن ہیں۔آپ ان عادات  پر کیسے قابو پا رہے ہیں؟

اکثر والدین مجھے بچوں کی شکایت کرتے ہیں کہ وہ ان کی سنتے ہی نہیں ہیں۔ بہت سے تو ایسے بھی تھے جو اپنے جوان بیٹوں سے ڈرتے بھی تھے کہ وہ کہیں ان پر ہاتھ نہ اُٹھائیں۔ میں نے ہائی حصے میں پڑھنے والے کئی ایسےبچے دیکھے جو  مکتب کے روزانہ کے معمول میں تو ٹھیک تھے لیکن جب ان کے والد کو بلایا گیا تو ان کا رویہ بدل گیا اور وہ اپنے آپ کو اعلیٰ سمجھنے لگے۔  اساتذہ کے سامنے والدین سے بد تمیزی کرنے لگے۔ میں اس کا سارا الزام والدین کو دوں گا۔ انھوں نے ضرور بچپن سے اپنے بچوں کے ساتھ فاصلے بڑھائے ہوں گے، غلط قسم کی پرورش کے طریقے اختیار کئے ہوں گے جو ان کے درمیان اتنی بڑی خلیج  پیدا ہو گئی۔ بطور والدین آپ کو کبھی بھی یہ خلیج نہیں بڑھانی چاہئے اور یہ تبھی  ممکن ہو پائےگا جب آپ بچوں کی پرورش اور ان کی نفسیات سے اچھی طرح سے واقف ہونگے۔ 

یاد رکھیں! بچے  کی آج کی غلطی آپ کے کل کی غلطی کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے