بچوں کوزندگی کی مہارتیں سکھائیں
یہ ضروری ہے کہ ہم بچوں کو اس کے عمر کے لحاظ سےضروری مہارتیں سکھائیں۔ ایسی مہارتیں جو ہماری عدم موجودگی میں ان کے کام آئیں۔ یہ مہارتیں زندگی کے لحاظ سے کوئی محدود نہیں ہیں لیکن عمرکے کسی خاص حصے میں محدود سی مہارتیں ہوتی ہیں جس کے بارے میں بچہ پہلے سے تربیت یافتہ ہونا چاہیے۔ ہمیں شروع سے ہی کوشش کرنی چاہیے کہ جیسے ہی بچے بڑے ہوتے جائیں ان کے اپنےکاموں کے لیے تربیت دیتے جائیں۔ یہ تربیت پاٹی کے استعمال سے شروع ہوتی ہے اور آگے چلتی جاتی ہے۔ بچے کو ڈیڑھ دو سال تک پاٹی استعمال کرنی سیکھ لینی چاہیے۔ اسی طرح تین سال تک ہمیں انہیں اپنے چارپائی کی چادر ٹھیک کرنے، اپنے جوتے صاف کرنے اور ہلکی صفائی کے لئے تیار کر لینا چاہئے۔
آپ کا بچہ جس عمر کےگروہ میں ہے آپ اس گروہ کے لحاظ سے کیاپانچ ضروری مہارتیں سکھانا چاہتے ہیں۔ |
ایک دفعہ میں نے سڑک کنارے گاڑی روکی۔ جیسے ہی دروازہ کھولا تو میرا بیٹا گاڑی سے اُترکر سڑک کے ساتھ بھاگنےلگا۔ میں جلد ی سے لپکا اور اُسے پکڑ لیا۔ اس دن سے میں نے سبق سکھا جوپہلے میرے ذہن میں نہیں تھا کہ سڑک یا گلیوں میں جہاں سے بھی گاڑیاں گزرتی ہوں بچے کو اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے۔ وہ کسی بھی وقت کسی بھی گاڑی کی طرف بھا گ سکتا ہے اور حادثہ ہوسکتا ہے۔اس لیےضروری ہے کہ جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں ان کی گھر سے باہر معاملات کے لیے تربیت دیں۔
ہم بطور والدین بچوں کو تعلیم دینے اور اسے کامیاب دیکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں لیکن ان کو زندگی کے معاملات کے لیے تربیت نہیں دیتے۔ یہ باتیں بہت چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ان کا اثر بہت دور رس ہو سکتا ہے۔ ہمارے ایک جامعہ کے ساتھی جماعت کے لیے آتے ہوئے موٹر سائیکل سے گرے۔ اس کا سر ایک پتھر سے ٹکرایا، بہت زیادہ خون بہا اور ہسپتال جاتے ہوئے چل بسے۔ اس واقعہ کے چند روزبعدمیں جامعہ سے نکلا اور گاڑی کاانتظار کرنے لگا۔اتنے میں ایک موٹر سائیکل والا آیا۔ شاید وہ راستہ اس کے لیے نیا تھا۔ اس کی موٹر سائیکل سپیڈ بریکر سے اُڑی اور سوار سر کے بل گرا۔ اس کا پہنا ہوا ہیلمیٹ ٹوٹ گیا لیکن ہیلمیٹ کی وجہ سے سر پر کوئی چوٹ نہیں آئی اور وہ بچ گیا۔ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمیٹ پہننا اور نہ پہننا ایک عام سی بات لگتی ہے لیکن اس کا نتیجہ زندگی وموت کی صورت میں ہوتا ہے۔
اپنےبچوں کو ایک سبق ضروردیں کہ وہ اتنے مضبوط بنیں ( ہر حوالے سے) کہ کل اس کےلئے لفظ بیچارہ استعمال نہ ہو۔
مکتب، بچے اور والدین
ہمیں پہلے سےہی اپنے شیڈول میں رکھنا چاہیے کہ بچے کو اس کےعمر کےمطابق یہ مہارتیں سکھانی ہیں۔ مثال کے طورپر دو سےتین سال کے بچے کے لیےآپ مقصد بنا سکتے ہیں کہ اسے گھر کے اصول، کھیلنے کے اصول، کھانے پینے کے اصول، ملنے کے اصول، راستے پر چلنے کے اصول، اپنی چیزیں درست کرنا، جوتے صاف کرنا وغیرہ آنا چاہیے۔ لیکن یہ سب کچھ خود بخود نہیں آئیں گے۔ والدین اس پر کام کریں گے۔ بچوں کو انہیں کاموں میں اپنے ساتھ شریک کریں گے اس کے بعد کہیں جا کر یہ سب کچھ ممکن ہو پائے گا۔
زندگی جینےاور بسر کرنے میں فرق ہے بلکہ یوں کہنا بہتر ہے کہ یہ ایک دوسرے کے برعکس ہیں۔ مجھےقوی یقین ہے کہ زندگی جینے کے لیے بچے کو کچھ خاص مہارتیں چاہیے ہوتی ہیں۔ یہ مہارتیں بچوں پر کام کر کے ان میں پیدا کی جاسکتی ہیں۔ جن کےپاس یہ ہنر آجاتا ہے وہ زندگی جی رہے ہوتے ہیں، زندگی کے ساتھ کھیل رہےہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ غلط پھینکی گئی بال کو کیسے کھیلنا ہے۔ کس بات کو پکڑنا ہے اور کس کو جانے دینا ہے۔ جن لوگوں کے پاس یہ مہارتیں اور گُر نہیں ہوتے ان پر کام بھی نہیں کرتے تو وہ زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی کی الجھنوں اور پیچیدگیوں میں بُری طرح اُلجھ جاتے ہیں اور زندگی بے ترتیب، بے ہنگم اور رنگوں سے عاری ہوجاتی ہے۔ اس لیے اپنے بچے کو زندگی جینے کے گُر سکھائیں نہ کہ وہ کل زندگی بسر کرنے لگ جائیں اور بوجھ محسوس کریں۔