بچے کو بُرے ساتھیوں سے بچائیں
بچے سیکھنے کے لیے اپنے والدین کو کم اور اپنے ساتھیوں (ہم مرتبہ ) کو زیادہ دیکھتے ہیں۔ ساتھیوں کے تعلقات ایک منفرد سیاق و سباق فراہم کرتے ہیں جس میں بچے اہم سماجی وجذباتی مہارتیں سیکھتے ہیں جیسے ہمدردی، تعاون، اور مسئلہ حل کرنے کی حکمت عملی۔ تاہم ہم مرتبہ کے تعلقات سماجی وجذباتی پرورش میں منفی کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ اس لیے والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچے کے ساتھیوں اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاهی رکھیں اور روزانہ کی بنیاد پر مشاہدہ کریں۔
جب میں ابتدائی جماعتوں میں تھا تو اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر مکتب جاتا تھا۔ ان ساتھیوں کے ساتھ میں نے اچھی باتیں بھی سیکھیں جو مجھے آج بھی یاد ہیں اور لازمی بات ہے یہ اچھی عادات ان کو والدین سے ورثہ میں ملی ہوں گی۔ لیکن ایک دن ایسا ہوا کہ مکتب جاتے ہوئے گھر کے کام پر بات ہونے لگی۔ ہم میں سے کسی نے بھی گھر کا کام نہیں کیا تھا۔ اُن دنوں میں بہت سخت سزائیں ملتی تھیں۔ جو ہم سب میں بڑا تھا اس نے خیال دیا کہ کیوں نہ آج مکتب سے چھُپ جائیں تاکہ سزا سے بچ سکیں۔ ہم پورا گروہ مکتب داخل ہوتے ہوتے واپس مڑے۔ اب گھر واپس بھی نہیں جا سکتے تھے۔ ہمیں یہ وقت کہیں باہرگزارناتھا جہاں پر کوئی ہمیں دیکھ نہ سکے۔ ہم راستے کےساتھ جھاڑیوں میں چُھپ گئے لیکن وہاں سے لوگ گزر رہے تھے اور ہمیں ڈر تھا کہ کوئی ہمیں دیکھ نہ لے۔اس لیے آبادی سے دور ویرانےمیں نکلے۔ اب یہ ڈر تھا کہ کوئی اغوا کر کےنہ لے جائے کیونکہ اس زمانے میں بچوں کے اغوا ہونے کا ڈر لگا رہتا تھا۔ باہر حال بہت مشکل سے دن گزارا اور چھٹی کے وقت گھر چلے گئے۔ اس کے بعدایسی حرکت کبھی نہ کی۔ یہ یاداشت یہاں پر لکھنے کی وجہ ہی یہی ہے کہ بچوں پر اپنے ساتھیوں کادباؤ ہوتا ہے اور وہ اس دباؤ میں کوئی بھی فیصلہ کر سکتےہیں۔
میں نے دیکھا ہے کہ بچے اپنے معمولات اور دلچسپیوں کی بنیاد پر گروہ بناتے ہیں اور ان میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھیوں کے دباؤ کی وجہ سے یہ رشتہ کافی مضبوط ہوتا ہے۔ اس طرح کے دباؤ میں وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ مثبت گروہ کے بچوں کی اچھی پرورش ہوتی ہے جب کہ منفی گروہ کے بچے اکثر اپنے والدین اور اساتذہ کو نظر انداز کرتے ہیں اوربعض اوقات باغی ہو جاتے ہیں۔
کیا آپ ایسے بچے کو جانتے ہیں جو ایک اچھے گھرانے میں پلا بڑھا لیکن برے ساتھیوں کی وجہ سے معاشرے کا منفی فرد بنا؟ |