الزام تراشی و تنقید سے گریز کریں
ایک ریٹائرڈ استاد کسی دعوت میں شریک تھے کہ ایک نوجوان ان کے پاس آیا۔ اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں آپ کا شاگر د رہا ہوں اور آپ سے اتنا متاثر ہوں کہ میں بھی آپ کی طرح اپنی نسل کی اصلاح کے لیے استاد بنا۔ استاد اس سے پوچھتا ہے کہ میں نے تمہیں کیسے متاثر کیا؟ تو نوجوان نے کہا جناب جب میں تیسری جماعت میں تھا توکسی بچے سے گھڑی چوری ہو گئی اور آپ نے تمام بچوں کو قطار میں کھڑا کر کے آنکھیں بند کرا کے تلاشی لی۔ آپ نے گھڑی برآمد کی اورمتعلقہ بچے کو واپس کر دی ۔ یہ گھڑی میرے جیب سے نکلی تھی۔ اس کے بعد میں نے توقع کی کہ آپ مجھے ڈانٹیں گے، نظر انداز کریں گے، اور میری پڑھائی کا خیال نہیں رکھیں گے۔ تاہم میں نے اس طرح کچھ بھی منفی محسوس نہیں کیا۔ لگتا ہے آپ کو معلوم نہیں تھا کہ میں چور تھا، گھڑی مجھ سے برآمد ہوئی تھی۔ بوڑھے استاد نے جواب دیا– جی بیٹا! مجھے یہ واقعی یاد ہے۔ لیکن مجھے کیسے معلوم ہوتا، جب میں بچوں کی تلاشی لےرہا تھا تو میں نے بھی آنکھیں بند کر رکھی تھیں تاکہ جب مجھے گھڑی ملے تو میں گھڑی چورکو نہ پہچان سکوں اور میری پڑھائی پر کوئی اثر نہ پڑے۔ اسے تربیت کہتے ہیں۔
اگر آپ کسی استاد کے بہترین عمل سے متاثر ہیں تو وہ کیا ہے جو آپ چاہیں گے کہ آپ کے بچوں کو بھی ایسے استاد ملیں؟ |
بچوں سے بات کرتے ہوئے الزام لگانے، مذمت کرنے یا غلطی تلاش کرنے سے گریز کریں کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی عزت نفس مجروح ہو سکتی ہے اور ان کے غصے کا باعث بن سکتی ہے۔ جب بچوں کو اپنے بارے میں منفی پیغامات ملتے ہیں تو ان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے۔ جب آپ کا بچہ غلط برتاؤ کرتا ہے تو غصہ کرناآسان ہےلیکن یہ غلط ہے۔ ناخوشگوار رویے کو نظر انداز کرنا اور مثبت رویے پر توجہ مرکوز کرنا ایک دانشمندانہ انتخاب ہے۔
جب والدین بچوں پر الزام تراشی یا پھر تنقید کرتے ہیں تو بچے اس غلطی کے بارے میں بھول جاتے ہیں ۔ حالانکہ والدین تنقید اس لیے کرنا چاہتے ہیں کہ بچہ اپنی غلطی کے بارے میں جان لے اور آئندہ محتاط رہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطی پر توجہ مرکوز کرے ، وہ اپنے آپ کو کم ترمحسوس کرنے لگتا ہے اور بڑوں کے روئے پر ناراض ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسامثبت طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے تاکہ وہ اس غلطی سے کچھ سیکھے اور مستقبل میں دوبارہ ایسا نہ کرے۔ یاد رکھیں کہ آپ کا بچہ غلطی پر نہیں ہے کہ آپ اس پر غصہ ہوں یا پھر اس پر تنقید کریں۔ غلطی ایک الگ رویہ ہے جو کہ آپ نے درست کرنا ہے۔ بچے اور غلطی کو الگ الگ دیکھیں۔
مائیں ایک جملے کا استعمال اکثر گھروں میں کرتی رہتی ہیں— "میں تیرےبابا کو بتاؤں گی”۔ وہ والد کے نام پربچوں کو ڈراتی ہیں اور اپنے لیے بچے کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرتی ہیں۔ والد اکثر اتنا باشعورنہیں ہوتا اور وہ بھی یہ دیکھ سن کر خوش ہوتا ہے کہ بچے اس سے ڈرتے ہیں یاگھر پر اس کا اختیار ہے۔ حالانکہ یہ تباہ کن الفاظ اور رویے ہیں۔والدکی ایک غلط تصویربچے کے ذہن میں پیداکی جاتی ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بچے کی پرورش پر بہت غلط اثر ڈالتی ہیں۔
آپ اگر وراثت میں ملے طریقے سے بچوں کی پرورش کرتے رہے ہیں تو اس میں کونسے طریقے اچھے ہیں اور کونسے طریقے بچوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ |