بچوں کواچھی کتابیں لے کر دیں

بچوں کواچھی کتابیں لے کر دیں

ایک دانا کا قول ہے کہ

” اگر آپ دو دنوں تک  کتاب کا مطالعہ نہیں کرتے اور تیسرے دن جا کر بات کرتےہیں تو آپ کی گفتار میں وہ شیرینی نہیں رہتی جو کتاب پڑھنے کے بعدہوتی ہے۔”

 کتاب اور انسان کا تعلق بہت پُرانا ہے یہ اتنا پُرانا ہے جتنا کہ انسان خود – جتنی انسان کی تہذیب پُرانی ہے۔  ہماری زندگی ایسی ہی گزرتی ہے جیسے ہماری عادات ہوتی ہیں۔ لیکن ہماری عادات ہماری سوچ سے بنتی ہیں۔ اور ہماری سوچ پر جو سب سےزیادہ اثر ڈالنے والی  ہے وہ کُتب بینی ہے۔جب ہم اچھی کتابیں پڑھتے ہیں تو ہماری ایک اچھی سوچ بنتی جاتی ہے اور یہی سوچ ہماری عادات بناتی ہیں اور اسی کے مطابق ہم ایک اچھی زندگی گزارنا شروع کرتے ہیں۔  آج کا انسان کتنے ذہنی  دباؤ  کا شکار ہے ۔ وہ مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کے گھر کےمسائل ہیں، اس کے پڑوسیوں کے مسائل ہیں، اس کے ملازمت کے مسائل ہیں۔ اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ ہم نے کتابیں پڑھنا چھوڑ دیں ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے زندگیاں گزاریں، تحقیق کی اور زندگی کے آخر میں چند اقوال، چند سطریں ہمیں دیں لیکن ہم وہ سطریں بھی نہیں پڑھتے۔  اگر ہم آنے والی نسلوں کی سوچ بدلنا چاہتےہیں، ان کو ایک مثبت انسان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے ہاتھوں میں کتاب دینی ہوگی۔

پہلے وقتوں میں جسمانی طاقت والے شخص کو اہم سمجھا جاتاتھا۔ پھر یوں ہوا کہ مشینری کادور آیا اور جسمانی طاقت کی اہمیت ختم ہوئی۔ زیادہ دورماضی میں نہ جائیں تو ایسےلوگوں کو اہمیت دی جاتی رہی ہے جو چیزوں کو یاد رکھ سکیں جہنیں کچھ لوگ ذہین کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ روبوٹکس اور سمارٹ سسٹمز نے اس صلاحیت کو بھی بستر سنبھالنے پر مجبور کر دیا۔ تو اس وقت دنیاکو کیاچاہیے؟ اس وقت دنیاکوایسے لوگ چاہییں جن میں اعلیٰ درجہ کی تخلیقی صلاحیتیں ہوں۔  لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا نظام تعلیم تخلیقی صلاحیتوں کوپیدا کر رہا ہے؟ میرے علم کےمطابق بالکل بھی نہیں یا پھر انتہائی کم۔ اس کمی کو صرف ایک چیز پوری کر سکتی ہے کہ ہم بچوں کو اچھی کتابیں لے کر دیں تاکہ ان کا نقطۂ نظر وسیع ہو سکے۔

مصنف محمد یوسف اور احمد ابراہیم کے ساتھ

آپ کے بچے کی عمر کےمطابق آپ کونسے پانچ کتابیں اُسے پڑھنے کو دیں گے؟

میں دیہا ت میں پلا بڑھا۔ کوئی پڑھائی کا ماحول نہیں تھا۔ مکتب  میں اساتذہ نہیں ہوا کرتے تھے اور نہ ہی والدین کو اتنا شعور تھا کہ بچےنے پڑھنا بھی ہوتا ہے۔ ہاں چونکہ دوسرے بچے صبح  مکتب  جایا کرتےتھے تو مجھے بھی بھیج دیا جاتا تھا۔ ایک مقصد ضرور تھا کہ جب یہ بڑا ہوکر مزدوری کرنے باہر جائے گا تو بسوں، اڈوں اور شہروں کے تختے (Signboard) خود پڑھ سکے گااور آسانی سے منزل پرپہنچ جایا کرے گا۔ گھر میں ایک ریڈیو ہوا کرتا تھا اور ان دنوں میں بی۔بی۔سی بہت مشہور ہوا کرتی تھی— وہ سننا شروع کیا۔ کبھی  کبھی   خلا کی یا پھر کسی خلائی مہم کی خبر آجایا کرتی تھی تو میں بڑے شوق سے سنتا اور اس مہم کے بارے جاننے کی کوشش کرتا۔ یہ  پیاس  مجھے کتابوں تک لے آئی۔ 

بچے کو کسی خاص موضوع پر کتاب لے کر دیں جو ان کی عمر کے مطابق ہو۔ پڑھنے کے لیے  وقت دیں جس سے ان کی مکتب کی پڑھائی متاثر نہ ہوتی ہو۔ پڑھنے کے بعد بچے سے کتاب پر اس انداز سے بحث کریں کہ وہ کتاب کے مرکزی خیالات  سمجھ پائے اور زندگی میں لاگو کر پائے۔

میں  پانچویں  جماعت  میں تھا تو ایک بچے سے جیب خر چ کا سنا کہ بچوں کو گھر سے روزانہ جیب خرچ بھی ملاکرتا ہے۔  میں تو حیران تھا کہ  بچوں کو  مکتب  آتے وقت پیسے بھی ملتے ہیں؟ ہفتہ کے دن  گاؤں میں منڈی لگا کرتی تھی۔ امی اسی دن مجھے دو روپے دیا کرتی تھی۔ وہ کتابوں اورکہانیوں کا دور تھا تو منڈی میں ایک سٹال لگتا تھا جس پر چھوٹی کہانیاں ملتی تھیں سب سےچھوٹی کتاب کی قیمت دو روپےہوا کرتی تھی۔  میں ہفتے میں ملنے والے دو روپے اس کہانی پر خرچ کر دیتا تھا۔ ان کتابوں نے میرے اندر پیاس پیدا کی۔ لیکن میں بھٹکتا راہی تھا۔ کوئی ایسا شخص یا کتاب نہ ملاجو مجھے کسی خاص راستے پر لگاتا۔ سمند ر میں بھٹکتا رہا۔ ان کتابوں نےدیر سے ہی سہی لیکن کنارے لگادیا۔ 

بچوں کی شخصیتوں پر کام کرکے، انہیں اصول سکھا کر، ان کی عزت نفس پر کام کرکے، انہیں سماجی مہارتیں سکھا کر، اور انہیں معیاری کتابیں دے کر، ہم انہیں اچھے اور کامیاب انسان بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ صحیح رہ نمائی اور مدد سے بچے پر اعتماد، خودمختار اور اپنی زندگی میں کامیاب ہونا سیکھ سکتے ہیں۔

The writer can be reached via Medium, YouTube, Facebook, Amazon, Twitter, LinkedIn, WhatsApp, and Google Scholar.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے