بچوں کے  خود اعتمادی پر کام کریں

بچوں کے  خود اعتمادی پر کام کریں

میرے ارد گرد کئی ایسے لوگ ہیں جن کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے۔ مشکل سے میٹرک پاس کر گئے ہیں لیکن مجھ سے کئی گنا زیادہ کماتے ہیں۔ زیادہ کمانے سے مراد یہی ہے کہ مجھ سے کئی گنا زیادہ بہتر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی بات سنی بھی جاتی ہے۔ ان میں سےکوئی بھی ایسا فرد نہیں ہے جس کا خاندان پہلے سے مالی طور پراچھا ہو۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ ایک شخص پوری زندگی پڑھائی اور کورسز میں لگاتا ہے اور پھر بھی جا کر ایک عام انسان جتنا نہیں کماتا۔ جواب صرف ایک لفظ کا ہے–    خود اعتمادی۔ اگر آپ خود  پر اعتمادکرتے ہیں اور ہر قسم کی زنجیر یں توڑکر آگےبڑھ جاتے ہیں تو ٹھیک ہے نہیں تو پھر دھاگوں میں بھی اُلجھ جاتے ہیں۔ 

اگر آپ خود  پر اعتمادکرتے ہیں اور ہر قسم کی زنجیر یں توڑکر آگےبڑھ جاتے ہیں تو ٹھیک ہے نہیں تو پھر دھاگوں میں بھی اُلجھ جاتے  ہیں۔ 

خود اعتمادی کسی کی اپنی صلاحیتوں، خوبیوں اور فیصلوں پر یقین ہے۔ یہ ایک مثبت رویہ ہے جو انسان کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنے اور ہمت اور عزم کے ساتھ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں کامیابی کے لیے خود اعتمادی ایک اہم عنصر ہے۔ اس سے لوگوں کو خطرات مول لینے، اہداف طے کرنے اور انہیں حاصل کرنے کے لیے کارروائی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اعلیٰ خوداعتمادی والے لوگ زیادہ خطرہ مول لیتے ہیں اور نئی چیزیں آزماتے ہیں، جو زیادہ کامیابی کا باعث بن سکتے ہیں۔ خود اعتمادی لوگوں کو تناؤ اور مشکل حالات کو بہتر طریقے سے سنبھالنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ جن لوگوں میں خود اعتمادی کی کمی ہے وہ چیلنجوں یا رکاوٹوں کا سامنا کرنے پر ہار ماننے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ خود اعتمادی کو فروغ دینے میں مشق اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ ایک اہم ہنر ہے جو لوگوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے اور زیادہ بھرپور زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہے۔

ہاتھی کتنا طاقتور جانور ہے۔ اپنی طاقت پرآجائے تو درخت تک اُکھاڑ دے۔  لیکن وہی ہاتھی اپنےپاؤں میں باندھے ایک ہلکی سی زنجیر کی غلام ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اسے بچپن سے اس زنجیر کےساتھ باندھاگیا ہے۔ اس نے بچپن میں کئی دفعہ زور لگایا لیکن زنجیر نہیں ٹوٹی تھی۔ بس اس نے تب سے فیصلہ کر لیا ہے کہ درخت تو جڑوں سے اُکاڑے جا سکتےہیں لیکن ایک ہلکی سی زنجیر نہیں توڑی جا سکتی۔ بس تب سے ہاتھی غلام ہے۔فقط اپنی سوچ کی وجہ سے غلام ۔ 

بچے کی تربیت کے لیے اداروں پر انحصار نہ کریں کہ  بچہ ایک اچھے ادارے میں ہے تو اس کی تربیت ہوجائے گی۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے آپ نےکرنی ہے۔ آپ خیال کریں گے تو ادارے بھی کریں گے۔ بچہ پہلے سے کچھ نہ کچھ جانتا ہو تو ادارے والے آگے لے آتےہیں نہیں تو بچے کبھی بھی آگے نہیں آتے۔ اپنے بچے کے ساتھ شروع سے کوشش کریں کہ  وہ بولنے کے حوالے سے، چلنے کے حوالے سے یا پھر کسی بھی کام کے حوالے سے بااعتماد ہو۔ بچے کو تقریریں، لطیفے، اشعار اور نغمے یاد کروائیں۔ انہی کی ویڈیو دکھائیں اورسمجھائیں کہ آواز کیسے سنبھالی جاتی ہے۔ اور جب بچے کا  ریاض  ہو جائے تو اس کے بعد اس کی ویڈیو ریکارڈ کریں اوربچےکو سمجھائیں کہ اپنی ویڈیو خود کئی دفعہ دیکھ لیں اورجو جو غلطیاں آپ کو نظر آجاتی ہیں تحریر کرتے جائیں اور ترتیب بنائیں کہ یہ سب کچھ کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔

میں جب پہلی دفعہ جامعہ (یونیورسٹی) گیا تو کھیل کے پروگرام تھے۔ ہمار اشعبہ ہاکی کا فائنل جیت گیا تھا۔اساتذہ اورطلبہ بہت خوش تھے اورمیدان میں سارے ڈھول کی تاپ پر ناچ رہے تھے۔ میں ایک طرف کھڑ ا تھا۔ اتنے میں ایک استاد آئے مجھے ساتھ لے گئے کہ افضل آپ بھی ہمارے ساتھ ناچیں۔ میں نے مشکل سے جان چُھڑائی کہ سر  میں کبھی زندگی میں بھی نہیں ناچا۔ مجھے اس دن شدت سے احساس ہوا  کہ ہم انسان ہیں جوخوشیوں کا بھی اظہارکرتے ہیں اور اس کے اظہار کے لیے لازمی ہے کہ ہم کچھ نہ کچھ اپنے جسمانی حرکات سے اظہار بھی کر سکیں اور یہ سیکھ بھی لیں۔ 

بچوں میں خود اعتمادی  پیدا کرنے  کا سائیکل

جیسا کہ شکل میں دیکھایا گیا ہے اپنے بچے کو اس کی  جماعت  کے لحاظ سے کوئی مواد(تقریر،نظم، کہانی وغیرہ) کی  نقل دیں۔ ویڈیو دیکھائیں اوربچے سے ریاض کرائیں۔ کچھ بہترہونے پر اس کی ویڈیو ریکارڈ  کرکے دکھائیں اور غلطیاں درست کریں۔ یہ عمل تب تک دہرائیں جب تک آپ کویقین نہ ہوجائےکہ بچہ اسے اپنی عمر کے حساب سے اچھے سے کرلیتاہے۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے