بچے کی دلچسپی کا احترام کریں
پڑھنے پڑھانے کے لیے ریاضی و حیاتیات (بیالوجی ) کے علاوہ بھی بڑے مضامین ہیں۔ ڈاکٹر اور انجینئرعام سے پیشے ہیں ان سے بڑے اور طاقت ور عہدوں کی ایک دنیا اور بھی ہے ۔ ہمارے والدین ، بچوں اور معاشرے میں ایک خاص خیال ہے کہ وہ یا تو ڈاکٹر بنیں گے یا پھر انجینئر۔ان کے سامنے اس کے علاوہ کوئی اور منزل ہی نہیں ہے۔ آپ کسی بھی مکتب جائیں تو صرف دو ہی جماعتیں نظر آئیں گی۔ لیکن خوشی ہے کہ یہ سحر اب ٹوٹنے لگا ہے اور والدین وبچے مختلف قسم کی دوسری مہارتوں کی طرف جانے لگے ہیں۔
میں نے بڑے سارے بچوں کو دیکھا ہے جو والدین کی اس ضد کی وجہ سے ضائع ہوئے۔ کوئی خاص شعبہ ان کی پسندنہیں تھا اور والدین زبردستی اُسی شعبہ میں لے کرجانا چاہ رہے تھے۔ ایک مشہور قول ہے کہ "ہر کوئی باصلاحیت ہے۔ لیکن اگر آپ مچھلی کو درخت پر چڑھنے کی صلاحیت سے پرکھتے ہیں تو وہ ساری زندگی یہ مان کر گزارے گی کہ وہ بیوقوف ہے”۔ آپ بطور والدین اپنے بچے کی صلاحیت کو پہچانیں پھر اس شعبہ کو اچھی طرح سے دیکھ لیں کہ آپ کا بچہ اس میں کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔ اچھی طرح سے منصوبہ بنائیں اور بچے کی مدد کرنا شروع کردیں۔
آپ اپنے بچے کو کس شعبے میں لے جا رہے ہیں اور کیوں؟آپ کا بچہ کس شعبے میں جانا چاہتا ہے اور کیوں؟اگر آپ اور بچے کی ترجیحات مختلف ہیں تو آپ اسے کیسے سنبھال رہے ہیں؟ |
سب سے اچھا پیشہ یہ ہے کہ کوئی اچھی مہارتیں سیکھ لی جائیں جن کی ضرورت پوری دنیا کو ہو۔ دنیا ایسے لوگوں کو بہت زیادہ ادا کرتی ہے۔ کچھ دن پہلے میں ایک ماہر ٹرینر کا پڑھ رہا تھا کہ وہ صرف ایک دن کے نشست (سیشن) کا 28 لاکھ روپے وصول کرتی ہے۔ کیا ہمارے ڈاکٹرز اور انجینئرز مہینے کا 28 لاکھ روپے کما سکتے ہیں؟ یقیناََ نہیں۔
چلو ایک لمحے کے لیے فرض کر ہی لیتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا سرمایہ نہیں کہ کوئی اپنا کاروبار یا کمپنی چلا سکے، لیکن ایسے عہدے اور مہارتیں ہیں جو ہمیں اچھی زندگی دے سکتے ہیں ۔ ہماری غلامی والی سوچ ہے کہ ہم ملازم بننا چاہتے ہیں،کسی کے ماتحت کام کرنا چاہتے ہیں، ہم کوئی اچھی زندگی نہیں چاہتے، ہم پہچان نہیں چاہتے، ہم قوم کا ستارہ نہیں بننا چاہتے۔