بچے کو نظر انداز نہ کریں
میں گاؤں کے حمام میں بیٹھا بال کٹوا رہا تھا۔ میرے ایک ہم جماعت کے والد حمام میں داخل ہوئے۔ اس کا دوسرا بیٹا میرا شاگرد تھا اور اپنی جماعت کا اول کا بچہ تھا۔ میں نے اس سے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ ما شاء اللہ آپ کا بیٹا پڑھائی میں بہت اچھا ہے۔ اس کا خیال رکھیں تاکہ وہ گاؤں کے ماحول میں خراب نہ ہو۔ کہنے لگے کہ “میں نے بیٹے کو مدرسے (دینی مدرسہ) بھی داخل کرایا ہوا ہے۔ آگے کہتا ہے کہ کل میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو میں نے اُسے کہا کہ بیٹا مذہبی تعلیم پر توجہ دو اور مدرسے (مکتب) کی تعلیم پر اتنا دماغ نہ کھپاؤ، ہم نے تو ویسے ہی ڈرائیور بننا ہوتا ہے پڑھ کر کیا کرنا ہے۔
جماعت دہم کے عملی امتحان کے دوران بچے امتحان سے اکثر غائب ہو جاتے تھے۔ ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ پرچہ کب ہے۔ میں امتحانی سنٹر پر ایک معلم کی ڈیوٹی ضرور لگاتا تھا کہ کہیں کوئی بچہ امتحان سے رہ نہ جائے۔ ایک دفعہ مجھے معلم نے فون کیا کہ امتحانی سنٹر میں تین طلبہ غیر حاضر ہیں۔ میں نے رول نمبر لیے، مکتب کے ریکارڈ سے ان کے نام اور فون نمبر نکالے اور ان کے انچارج کو جلدی سے ان کے والدین کو فون کرنے اور ان کو امتحانی سنٹر پہنچانے کا کہا۔ سارے والدین کو فون کیے گئے۔ رپورٹ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ جناب! اس بچے کے ابو کَہ رہے تھے دیر ہو گئی اس لیے نہیں گیا۔ ایک دوسرے طالب علم کے نام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ؛ اس کے ابوکَہ رہے تھے کہ پتہ نہیں وہ کہاں ہوگا۔ میں نہیں ڈھونڈ سکتا اُسے۔ دفعہ کرو اس کے امتحان کو۔
مکتب کی انتظام کی ذمہ داری لینے کے بعد میں نے معلم، والدین و طالب علم کے تعلق پر انتہائی توجہ دی۔ ہر جماعت کے ہر حصہ کے لیے پروگریس رپورٹیں بنائیں۔ ایک ایکسل شیٹ مرتب کی جس پر ماہانہ نتائج و غیر حاضریاں لکھی جاتیں اور ہر بچے کے مہینے کی پوری رپورٹ بنتی۔ مجھے امید تھی کہ جب ہم والدین کو بلائیں گے اور وہ ہماری یہ کاوش دیکھیں گے تو اگلی دفعہ وہ ضرور بچے کی رپورٹ دیکھنے آئیں گے۔ میں نے ہر جماعت کے ذمہ دار معلم کو یہ بھی تاکید کی کہ جو بھی بچہ غیر حاضر ہو، اس کے والدین کو لازمی فون پر مطلع کریں۔ والدین کا پہلا اجلاس بلایا تو کوئی چار سے پانچ فیصد والدین نے شرکت کی۔ اس کے بعد بدقسمتی سے یہ تعدادایک دو فیصد سے نہ بڑھ سکی۔ اور اکثر والدین یہی کہتے رہے کہ ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ مکتب آسکیں۔
میں ان باتوں کو تحریر میں لا رہا ہوں کہ یہ خاص واقعات ہیں– ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ آئے روز کا معمول ہے۔ مکتب سے والدین کے نمبر پرجب کال کی جاتی ہے تو اکثر تو یہی ہوتا ہے کہ اگرفون نمبر پہچان لیا جائے تو کوئی سنتا نہیں اگر سن بھی لیا جائے تو کوئی خاص ردعمل نہیں۔ نظام تعلیم میں استاد، والدین اور طالب علم ستونوں کی طرح ہیں۔ سارے ستون ہونگے تو تعلیم کا نظام قائم رہے گا نہیں تو یہ نظام نہیں چل سکے گا۔ میرے نزدیک والدین کا کردار باقی دونوں کرداروں سے بہت اہم ہے، کیونکہ کہ طالب علم اس عمر میں اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کے قابل نہیں ہوتا اور استاد و طالب کے درمیان تعلق اتنا طاقتور نہیں جتنا والدین و بچے کے درمیان ہوتا ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کو گھریلو تشدد کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انھیں نفرت کرنا نہیں سکھایا جاتا، انھیں مزدوری کے لیےاستعمال نہیں کیا جاتا، اور نہ ہی ان پر لیبل لگایا جاتا ہے۔ ہمیں انہیں ایک محفوظ ماحول میں پرورش کے لیے درکار تعاون اور وسائل فراہم کرنے چاہییں۔ایسا کرنے سے ہم اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔