بچوں سے مزدوری نہ کرائیں

بچوں سے مزدوری نہ کرائیں

بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی نہ رکھنے اور پڑھائی ادھوری چھوڑ نےکی بڑی ساری وجوہات ہیں لیکن بچوں سے مشقت کروا کر گھر کا نظام چلانا ایسی وجہ ہے جو سر اُٹھا کر بولتی ہے۔ میں نے اپنی تدریسی خدمات میں دیکھا کہ یہ ایک بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے بچے پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے، غیر حاضر رہتے ہیں اور آخر کا رتنگ آکر پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ 

 اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں معاشی دباؤ شدید تر ہے اور مفلسی کا گھر گھر راج ہے۔ ایسے حالات میں جب والدین اپنے بچوں کو کھانا نہ کھلا سکتے ہوں، پڑھائی ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔والدین انتظار کرتے ہیں کہ بچہ کب پیروں پر چلنا شروع کرے تاکہ وہ کاموں میں ان کا ہاتھ بٹائے۔ بچہ جیسے ہی چلنا شروع کرتا ہے اس سے کام لینا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر بچہ کسان کا بیٹا ہے تو وہ گھر کا چرواہا بن کر صبح و شام بکریوں کے چرانے میں مصروف ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ جانوروں کو چارہ کھلانا، فصلوں کو پانی دینا اور کٹائی کرنا وغیرہ ایسی مشقتیں ہیں جو اس کو پہلے پانچ سال سے شروع کرنی پڑتی ہیں۔ دوکاندار کا بیٹا ہے تو اس کو  دکان پر بطور مدد گار رکھ لے گا اور اگر مزدور کا بیٹا ہے تو وہ اسے اپنے ساتھ مزدوری پر لگا دے گا۔ اسی طرح اگر ڈرائیور کا بیٹا ہے تو اسے پہلے پانچ سال میں ہی کنڈکٹر بنا دیا جاتا ہے۔ بیٹیوں کا حال اس سے بد تر  اور ناقابل بیاں ہے ۔

toddler in yellow top and hat holding fruit
Photo by Hồng Xuân Viên on Pexels.com

یہ بچوں کے ساتھ ایسا ظلم ہے جس کو ایک حق سمجھا جا تا ہے۔  والدین اپنے کنبے کے نان نفقہ کے ذمہ دار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو اچھا نہ کھلائیں پہنائیں لیکن ان کے مستقبل بنانے کا حق نہ چھینیں۔  فقیری کی زندگی میں رہ کر اور والدین کی محنت کو دیکھ کر وہ اپنا اچھا مستقبل بنا سکتے ہیں لیکن پچپن میں مزدوری شروع کر کے والدین یہ حق ہمیشہ  کے لیےچھین لیتے ہیں۔  یہ انتہائی نا انصافی ہے۔ یہ بچوں کی زندگی ختم کرنے کے مترادف ہے۔ ہماری اپنی زندگی اگر مشکل میں گزری ہے یا پھر گزر رہی ہے تو ہمیں کم از کم اپنے بچوں کا تو سوچنا چاہیے۔ میں نے بہت سارے ایسے والدین دیکھے ہیں جو معاشی طور پر بہت خوشحال ہیں لیکن وہ اپنے چھوٹے بچوں کو پڑھانے کے بجائے کام پر لگا دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خاموش عمل ہے جو ہمارے معاشرے میں نہ صرف  ناانصافیوں کا ذمہ دار ہے بلکہ مزدورکے خاندان کو مزدور اور ڈرائیور کے خاندان کو ڈرائیور تک محدود رکھتی ہے اور یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ 

یہاں کا تو بچہ بھی مزدور ہے میں ایک مزدور کی بات کیسے کر وں۔ جس عمر میں بچوں کو محبت دینی چاہیے تھی، جس عمر میں بچہ عادات سیکھتا ہے، ہم اسی عمر میں اسے دوکان پر بیٹھا دیتے ہیں، مزدور ی پر لگا دیتے ہیں۔ ایک انسان 90 فیصد زندگی اپنی عادات  پر گزارتا ہے،  زندگی میں وہی  کچھ کرتا ہے جو اس کی عادات ہوتی ہیں جو کچھ وہ سیکھ چکا ہوتا ہے۔ ہوٹل پر چائے پلا کر، بھٹے پر اینٹیں بنا کر،  مالک کے برتن مانجھ کر ، ہم کیسے ان کے شاندار مستقبل کا خواب دیکھ سکتے  ہیں؟ 

جیون خان جو کہ ایک چیف سیکریڑی گزرے ہیں اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں : "میرے والد گاؤں میں کھیتی باڑی کیا کرتے تھے اور پڑھانے کا کوئی خاص رواج نہ تھا۔ ایک دن پٹواری نے والدکو ان پڑھ ہونے کا طعنہ دیا۔ اُسی دن والدنے فیصلہ کیا کہ وہ ہر قیمت پر بچوں کو پڑھائے گا اور ان سے کام نہیں لے گا۔” انہوں نے پڑھایا اور اپنے خاندان کوبدل دیا۔ اگر ہمارے والدین تھوڑی سی قربانی دیں تو ہمارے بچے بھی جیون خان بن سکتے ہیں۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے