بچے کے سیکھنے کی صلاحیت کو سمجھنا

بچے کے سیکھنے کی صلاحیت کو سمجھنا

مشہور قول ہے  کہ

 "ہر کوئی باصلاحیت ہے۔ لیکن اگر آپ مچھلی کو درخت پر چڑھنے کی صلاحیت سے پرکھتے ہیں، تو وہ ساری زندگی یہ مان کر گزارے گی کہ وہ بےوقوف ہے”۔

سیالکوٹ، پاکستان کاتخلیقی ذہن کا  مالک طالب علم میٹرک کاامتحان دیتا ہے لیکن متعلقہ تعلیمی بورڈ  اس کو بُری طرح سے ناکام قراردیتا ہے اور اس پرناکام انسان کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ تعلیمی نظام سے ناکامی کا سرٹیفیکیٹ لینے کے بعد وہ گاڑیوں کا مستری بنتا ہے لیکن  اس کا تخلیقی ذہن ابھی بھی اُسے آرام سے نہیں  رہنے دیتا۔ وہ اپنی ورک شاپ میں ہی جہاز بنانا شروع کرتاہے۔ ان پڑھ انسان ہے اسے ریاضی اور  فزکس کے اصولوں کا نہیں پتہ۔ محنت کرتا ہے اور ایک دن جہاز اُڑا لیتا ہے۔ نالائق لیبل شدہ انسان، سائنس دان کا کام بغیر کسی کے مددکے کر لیتا ہے۔  یہ ظاہر کرتا ہے کہ جس بچے کو ہمارے نظام تعلیم نے ناکام قراردیا تھا وہ ایک ذہین انسان تھا۔ لیکن ایسا کیوں ہوا کہ نظام تعلیم و امتحان اس کو پہچان نہیں پایا؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام سیکھنے والوں کو صرف ایک طریقے سے پڑھاتا ہے اور امتحانی نظام سیکھنے والوں کو اسی طریقے سے پرکھتا ہے۔اس خاص طریقے سےسیکھنے کے علاوہ بچوں کو نہ تو پڑھایا جاتا ہے اور  نہ ہی طالب علم سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ والدین، اساتذہ و معاشرہ اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اکثر اوقات تو یہ سخت جسمانی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ 

آپ کا بچہ کونسے طریقے سے اچھے سے سیکھتا ہے؟

جس طر ح بچوں کو عمروں کے لحاظ سے جاننا ضروری ہے اس طرح والدین اور اساتذہ دونوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچے کو جان لیں کہ وہ کس طریقے سے سیکھنے والا ہے۔ماہرین نفسیات سیکھنے کے انداز کو چار اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔

  1. بصری طریقے سے سیکھنے والے
  2. سمعی  طریقے سے سیکھنے والے
  3. حرکی (کائینسٹیٹک) طریقے سے سیکھنے والے
مصنف اپنے بیٹے محمد یوسف کے ساتھ

 بصری طریقہ سے سیکھنے  والے بچے چیزوں کو دیکھنے سے سیکھتے ہیں، مثال کے طور پر تصاویر، ویڈیوز اور خاکے ان کے سیکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔  کچھ بچے سمعی ہوتے ہیں جو آوازوں کے ذریعے سیکھتے ہیں۔  اسی طرح کائینسٹیٹک طریقہ سے سیکھنے والے بچے، تجربہ کرنے یا کام کرنے کے ذریعے سیکھتے ہیں۔

ہمارے  مکتب و ادارے صرف ایک طالب علم کو پڑھاتے ہیں۔ جہاں پر پڑھانے کا انداز سیکھنے والے انداز سے مل گیا، وہ پڑھ گیا اور جن بچوں کے سیکھنے کے انداز پڑھانے والے کے انداز سے نہیں ملے، وہ نہیں پڑھ پائے۔ 

یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ بچے کے سیکھنے کے طریقہ کار کے ساتھ تدریسی طریقہ کار کو مربوط کرنا ہے۔ سیکھنے والے اوسط رہیں گے اگر استاد اس کے سیکھنے کے انداز تک نہیں پہنچتا ہے۔ تدریسی مہارتیں تدریسی عمل کی دھڑکن ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں اس پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ ہمیں ہر ایک کو ایک اچھا سیکھنے اور مسابقتی ماحول فراہم کرنا چاہیے۔سیکھنے کے انداز کی تشخیص (جو دراصل سوالات کا ایک مجموعہ ہے) کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کے سیکھنے کے انداز کو سمجھاجا سکتا ہے۔

اگر طالب علم کی تعلیم و تربیت میں والدین، اساتذه اور سربراہ ادارہ اچھی طرح سے مشغول ہوں تو ایسے بچے کامیابی سے پڑھ جاتے ہیں۔  

بصری طریقے سےبچہ تصاویر سے لطف اندوز ہوتا ہے (جیسے خاکے، ویڈیو، گراف، نقشے وغیرہ)
سمعی  طریقے سےبچے کو کھیلتے یا مکتب کا کام کرتے وقت گانا، گنگنانا، یا بات کرنا پسند  ہوتاہے۔
پڑھنے /لکھنے سےبچہ نوٹس بنانا اور پڑھنا  پسند کرتا ہے۔ 
کائینسٹیٹک  طریقےبچہ جسمانی سرگرمیاں (کھیل کر سیکھنا) کرنا پسند کرتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے