بچوں کے نشوونماکے مراحل کو سمجھنا
یہ پشاور کی ایک ٹھٹھرتی دسمبر کی شام ہے۔ پشاور کے ایک تنگ بازار میں اِنسانوں کی آگے بڑھنے کے لیے دھکم پیل جاری ہے ۔ گلی کے ساتھ ساتھ دوکانداروں نے دن بھر ہزاروں لاکھوں کا کاروبار کر لیا ہے۔ وہ ابھی بھی نئے گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کل سے کچھ اچھا کما کر گھر لوٹیں اور اپنے بچوں پر خرچ کر سکیں۔ گلی کےدرمیان میں یہی انسان دوسرے انسانوں کو دھکیل رہا ہے کہ وہ ایک اچھا دوکاندار تلاش کر سکیں۔ جہاں اچھے دام میں بچوں کے لیے کچھ خرید پائیں ان کے لئے کچھ بچا پائیں ۔ انہی کے بیچ ایک معصوم سا چہرہ جس کی عمر بمشکل پانچ چھ برس ہوگی، ہاتھوں میں کاپی قلم لیےدیوار کا سہارا لیے اکڑوں بیٹھا ہے۔ یہ بھی نسلِ انسانی سے ہی ہے۔ یہ چہرہ ارد گرد کی بھیڑ سے بے خبر، کچی پنسل سے کاپی پر کچھ لکھ رہا ،مٹا رہاہے۔ ایسے ہی جیسا ان کا بادشاہ اس بھیڑ کےفیصلے لکھتا اور مٹاتا ہے۔ یہ ایک انداز تھا، مجبوری تھی یا پھر شوق لیکن مجھے اس کے چہرے کی معصومیت اور بھرےبازار سے بے خبری پیاری لگی۔ پنسل، کاپیاں، کتابیں، غربت، بے بسی، لاچاری اور معصوم بچے میرے لیے پر کشش موضوعات ہیں اور یہاں سب کچھ ایک ساتھ ہے۔اس بچے کی مثل گھنے جنگل میں اس نوآمدہ پودے کی ہے جس سے سارے پیڑ بے خبر ہیں اور وہ اپنے وجود کا خود ہی ذمہ دار ہے۔بچے کے سامنے رکھا ہوا وزن کا کانٹا سسک سسک کر بول رہا ہے کہ اس کے مالک کے کاندھے ملک کے بادشاہ کے کاندھوں سے کہیں بھاری ہیں۔
ان مناظر میں ایک درد کی کیفیت تھی جو میرے اندر کو جھنجوڑ رہی تھی اور میرے قدم جکڑ رہی تھی۔ میں کافی دیر تک اس معصوم چہرے کو تکتا رہا جو بے خبر لکھنے میں مشغول تھا۔ میں نے ساتھیوں کے آگے بڑھنے کو یہاں وزن کرانے سے مشروط کر دیا۔ہم چار گاہک اس کے سامنے کھڑے ہیں۔ لیکن اس کی دلچسپی ہم میں نہیں ہے۔ یہ میری زندگی کا پہلا دُوکاندار ہے جو اپنے گاہکوں سے اس قدر لاپرواہ ہے۔ وہ برابر کچھ لکھتا اور مٹاتا رہا ۔ اس سےگفتگو کرنے کے لئے میں اپنا معلمانہ انداز اپناتا ہوں۔ اس سےسوال پوچھتا ہوں لیکن اس کا جواب ہاں اور ناں کے سو اکچھ بھی نہیں ۔ ہم ایک ایک کر کے وزن کرانے لگتے ہیں۔ جیسے ہی کانٹے پر پیر پڑتا ہے سکوت میں ڈوبی سوئی بے قراری سے دوڑ پڑتی ہے۔ اس سوئی کی بے قراری بھی اس کا انداز بدل نہیں پارہی۔ جب سوئی رکتی ہے تو وہ ایک لمحے کے لیے اپنی پنسل روکتا ہے، سوئی کی طرف دیکھتا ہےاور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوتے ہوئے انتہائی دھیمے لہجے میں کہتا ہے "اتنے کلو”۔
آپ کونسی پانچ عادات چاہیں گے کہ آپکا بچہ بالکل نہ کرے؟ مثال کے طورپر وہ کبھی بھی بڑوں کے ساتھ بد تمیزی نہ کرے۔ |
دنیا میں اتنی بھیڑ ہے کہ بازار میں چلنے کو راستہ نہیں۔ ایسے آگے بڑھنا پڑتا ہے جیسے گہرے جنگل میں شاخوں کو ہٹا کر راستہ ڈھونڈا جاتا ہے۔اکثر تو یہی گماں ہوتا ہے کہ اس بھیڑ اور جنگل میں فرق ہی کیا ہے۔ نہ اس بھیڑ میں احسا س اور نہ جنگل کے پیڑوں میں کوئی احساس۔ جنگل بھی ہے اور تنہائی بھی۔یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے افریقہ کے اُس مفکر کی یاد آتی ہے جو ایک حاضر خدمت معلم ہے اور انسانیت کے مسائل پر لکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ
"انسانوں کی زندگی میں بہت دُکھ ہیں۔یہ دُکھ نا قابل برداشت ہیں۔ اِ ن دکھوں کو جھیلنے کے لئے ہمیں اور انسان پیدا نہیں کرنے چاہئیں اور نسلِ انسانی کو ختم کر دینا چاہئے۔”
مجھے اس وقت شدید دکھ ہوتا ہے جب والدین اپنی ذمہ داریاں معصوم بچوں کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں اور خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں بچوں کی معصومیت کے بارے میں یا تو معلوم نہیں یا پھر احساس نہیں۔
اس لیے والدین کو بچوں کی عمر کے لحاظ سے جاننا بہت ضروری ہے اور یہ کہ اس خاص عمر میں بچے کن عادات سے گزرتے ہیں۔ اس عمر میں بچے کیا کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور اُن سے کیا اُمیدیں نہیں رکھی جاسکتیں۔ یہ تھوڑی سی معلومات والدین کے کام کو آسان بنا دیں گی۔
نفسیات بچوں کو درج ذیل عمر کے گروپوں میں تقسیم کرتی ہے۔
- نوزائیدہ بچہ (Infant )
- چھوٹا بچہ (Toddler)
- مکتب سے پہلے (Preschooler)
- دورانِ مکتب (Schooler)
- نوعمر (Teenager)
- بالغ (Adult)
یہ گروہ مختف مطالعوں میں مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ درج ذیل ٹیبل عمر کے لحاظ سے ان کو ذمہ داریاں دینے میں مدد کر سکتی ہے۔
نوزائیدہ بچہ (Infant ) | پیدائش سے لے کر ایک سال کی عمر تک کے بچے کونوزائیدہ بچہ کہا جاتا ہے۔ یہ اپنی ہر ضرورت کے لیے والدین پر انحصار کرتا ہے۔ |
چھوٹا بچہ (Toddler) | ایک سے لے کر تین سال کے بچے کو چھوٹا بچہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس عمر میں بچہ بنیادی عادتیں سیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور والدین پر انحصار کم کرتا جاتا ہے۔ |
مکتب سے پہلے (Preschooler) | یہ عمر تین سے لے کر پانچ سال تک کی تصور کی جاتی ہے۔ اس عمر میں والدین مکتب کی بنیادی اسباق گھر پرسکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ |
دوران مکتب (Schooler) | پانچ سے لے کر بارہ سال تک کی عمر کا بچہ اس زمرےمیں آتا ہے۔ اس عمر کا بچہ اپنے چھوٹے مسائل کو آزادانہ طور پر حل کرتا ہے اور بااعتماد محسوس کرتا ہے۔ |
نوعمر (Teenager) | 12 سال سے لے کر 18 سال کے بچے کو نو عمر کہا جاتا ہے۔ اس زمرے کا بچہ بڑا ہوتا ہے لیکن ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہوتا اس لئے والدین کے لئے مشکل ہوسکتی ہے ۔ |
بالغ (Adult) | 18 سے لے کر21 سال کے بالغ اس زمرے میں آتے ہیں۔ یہ بچے بڑے ، سمجھدار اور کالج اور جامعات میں پڑھنے والے ہوتے ہیں۔ |