بچوں کو نفرت نہ سکھائیں
ہمارا معاشرہ محبت اور پسند کو تو شاید ہی کوئی اہمیت دیتا ہولیکن نفرت ہم سو کر بھی کرتے ہیں اور صبح و شام کرتے ہیں۔ سامنے والے کو ہمارے جذبات کا علم ہے یانہیں لیکن ہم اپنے آپ کو اندر سے اسی نفرت میں مار دیتے ہیں، پگھلا دیتے ہیں، جلا دیتے ہیں اور دماغ نفرت سےپھٹنے لگتا ہے ۔ سر اس قابل نہیں رہتا کہ سر ہانے سے اُ ٹھا یا جائے۔ ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ پوری دُنیا اس سے نفرت کرےاور اپنے حلقۂ احباب کی فہرست سے بھی نکال پھینکیں۔ نفرت کرنا بہت عام بیماری ہے۔ اس بیماری کا نقصان صرف اور صرف خود (نفرت کرنے والے) کو ہوتا ہے سامنے واے کو نہیں یا پھر بہت ہی کم۔
معاشرہ ہمیں محبت کرنا نہیں سکھاتا نفرت کرنا خوب سکھاتا ہے۔ جب معصوم بچہ الفاظ کو جوڑنا سیکھ رہا ہوتا ہے تو اسے اپنے کمرے سے پہلے یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ بچے چچی کے کمرے میں نہیں جانا۔ کچھ عرصہ بعد اسے گھر سے پیغام ملتا ہے کہ فلاں فلاں کے گھر اجازت ہے اور فلاں کے گھر نہیں ۔ تھوڑا سا زندگی کا سفر اور آگے بڑھتا ہے تو کسی خاص خیل(قبیلہ)سے نفرت کے درس سنتا ہے۔ جب وہ مذہبی تقریبات میں شرکت کرنے لگتا ہے تو اسے مخالف عقائد سے نفرت کے جذبات ملتے ہیں۔جب وہ تدریسی کتابیں پڑھنا شروع کرتا ہے تو اسے دوسرے اقوام و ممالک سے نفرت کے اسباق ملتے ہیں۔ ہم نفرت سیکھ سیکھ کر بڑے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم نفرت کرنے میں غضب کے ماہر ہوتے ہیں۔
کیا آپ کو گھر، مکتب اورمعاشرے نےنفرت کرناسکھائی ہے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں تھا؟ آپ اپنے بچوں کو اس نفرت کےپھیلاوسے کیسے بچائیں گے؟ |
ایک دفعہ میں بچوں کو بلاکس کی مدد سے کچھ سرگرمیاں کر وا رہا تھا۔ ان کو مختلف کام دیے جو انہوں نے بلاکس پر کرنے تھے۔ میں تھوڑی دیر تک کہیں مصروف ہوا اور بعد میں فرش پر دیکھا تو کھلونے کوئی خاص انداز میں سجے ہوئے تھے۔سمجھ تو میں گیاکہ کیا ہورہاہے۔ پوچھا– بیٹا! یہ کیا ہے تو کہتا ہے کہ یہ میری فوج ہے اور یہ دشمن کی ۔ یہ دشمن کے سپاہی مر ے پڑے ہیں۔ یہ ایک چار سال کے بچے کی سوچ ہے جس نے ابھی مکتب جانا شروع کیا ہے۔ ہمارے بڑوں کا حال سنیے– وہ خاص تقریبات پر اپنے بچوں کو پستول اور بندوق (کھلونے) بطور تحائف پیش کرتے ہیں۔ جتنی بچے کی قربت زیادہ ہوگی اتنی بندوق کی نالی لمبی ہوگی۔