پرورش فطرت کا تعین کرتی ہے
بوڑھی اماں سڑک پرپیدل رواں ہے، عمر کے اس حصےمیں اس کی رفتار انتہائی مد ھم ہے۔ فاصلے کم ہوئے تو یاد آیا کہ اماں ایک دفعہ مجھےاپنے بیٹے کے سلسلے میں ملی تھی۔ مدرسے میں یہ واحد ایسا طالب علم تھا جس سے کوئی بھی معلم خوش نہ تھا۔ بلکہ اساتذہ احتیاط برتتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھ نہ اُلجھے ۔ درمیانی جماعتوں میں ہوتے ہوئے بھی اس کی گردن فولادی تھی اور اساتذہ کی سامنے جھکتی نہ تھی۔ راہ راست پر لانے کی بہت کوششیں کی گئیں، بہتیرا ان کے والدین کوفون کر کے بلایا گیا۔ مگر شایدان کو معلوم تھا کہ یہ ان کے قابومیں نہیں رہااور بدچلن بن چکا ہے۔
اماں کو دیکھا تو ساری کہانی فلم بن کر آنکھوں کے سامنے چلنے لگی۔ سوچااماں کہیں پاس کسی کے گھرجارہی ہوں گی۔ ہماری روایات میں عیادت کرنا، فوتگی پر جانا فرائض سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ اسی دن شام کومجھے کہیں باہر جاناپڑ گیا۔ جیسے ہی قریبی گاؤں پہنچا جو کہ قریباََ پانچ چھ کلومیٹر دورہے تواسی اماں کو اسی رفتار سے واپس آتے دیکھا۔ میری آنکھیں اماں پر رک گئیں۔ میں حیران تھا کہ یہ صبح اسی حالت میں یہٖ فاصلہ پیدل طے کر کے اپنے رشتہ دارں کے پاس آئیں اور اب پھر وہی راستہ طے کر کے واپس جائیں گی۔
جس بات نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا وہ یہ کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ بے بس کے بچے ہی ڈان بننے کی کوشش کرتے ہیں؟ انہیں اپنے والدین کے حالات کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟ جو لوگ مستی برداشت کر سکتے ہیں وہ اگر مستی کر بھی لیں تو کچھ سمجھ آتی ہے کہ لاڈلے ہیں۔ یہ پسے ہوئے لوگ کیوں؟ یہ اپنے درد کو محنت سے کامیابی میں کیوں نہیں بدلتے؟ ان سارے سوالوں کا ایک ہی جواب ہے ان کو گھر میں یہی ماحول ملا۔ یہ شروع سے خود سر رہے۔ پھر غلط قسم کے گروہوں کا شکار ہوئے۔
بچے عموماََ اپنے والدین کا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر بچے اس ماحول کی نقل کرتے ہیں جس میں وہ بڑے ہو رہے ہیں۔ بچے وہی بنیں گے جو آپ انہیں بنائیں گے۔ والدین ان کے مثالی شخصیات ہوتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ آپ ان کے سامنے محتاط رہیں۔ گھر اور اردگرد اچھی پرورش کا ماحول رکھیں جس سے بچوں میں اچھی عادتیں پیدا ہو سکیں۔ بچے کیا بنیں گے؟ ان کا کیسا رویہ ہوگا؟ وہ کس ذہنیت کے مالک ہوں گے؟ یہ سب انحصار کرتا ہے کہ بچے کے گھر میں کیا ماحول ہے؟ وہ کس ثقافت سے ہے؟
اس والد یابھائی کی کیا وضاحت دی جا سکتی ہے جو بچوں کو تحفہ میں (کھلونا) بندوق لا کر دیتا ہو۔ آپ اپنے معصوم بچے کے ہاتھ میں بندوق تھماتے ہیں اور پھر توقع کرتے ہیں کہ وہ معاشرےکے لیے ایک اچھا انسان بنے گا۔ یہ تو خوش فہمیوں کی حد ہے۔ بچہ بندوق کے ساتھ کھیلے گا تو بڑا ہو کر بندوق ہی اُٹھائے گا قلم کیونکر اُٹھائے گا؟
بچوں کو عام کھلونوں کے بجائے تعلیمی کھلونے دیں ۔ مثال کے طور پر مکتب سے پہلے بچے کے لیے آپ رنگوں کے کھلونے، حروف تہجے کے بلاکس، جانوروں اور پرندوں کی پہچان کرانے کے لیے ان کے کارڈ اور کھلونے، جیومیٹری کی شکلیں، نمبروں کی پہچان کےلیے ریاضی کے کھلونے وغیرہ۔ |
ایک والد ایسے بھی ہیں جو ارب پتی ہیں۔ اُن کی اربوں کی جائیدادیں ہیں۔ لیکن اس خاندان کے بچے گھر سے بُری طرح نظر انداز کیے جاتے ہیں۔ یہ نظراندازی صرف تربیت کے حوالے سے نہیں بلکہ ان کی جائز ضروریات بھی پوری نہیں کی جاتیں۔ لازمی بات ہےبچے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے غلط راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ میں نے اپنی تعلیمی خدمات میں دیکھا کہ اس خاندان کے جو بچے مکتب آئے وہ پڑھ نہ سکے ۔وہ مکتب کا ماحول اور خود کو خراب کرتے رہے۔
میں مکتب پیدل جاتا ہوتا ہوں اور اس سات آٹھ فرلانگ فاصلے میں مجھے اکثر مائیں اوردادیاں ملتی رہتی ہیں جو اپنے بچوں اور پوتوں کے مسائل میرے ساتھ شریک کرتی ہیں۔ایک دن ایسے ہی آدھا فاصلہ چلنےکے بعد میں نے دیکھا ایک دادی اماں پگڈنڈی پرکھڑی میرا انتظار کر رہی تھی۔ سلام دعا کے بعد دادی اماں نے بتایا کہ اس کا پوتا میرے پاس چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے۔ پورا سال وہ نہیں پڑھتا رہا ہے اور اب جب سالانہ امتحان شروع ہے تواس کے باوجودبھی وہ کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتا اور مکتب سے واپسی پرباہر بھاگ جاتاہے۔ دادی اماں نے میری دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ میں اکثر والدین و اساتذہ کے ساتھ ملاقاتوں میں اسی بات کا اشتراک کرتا رہتا ہوں۔ جب ہم مکتب میں پڑھا کرتے تھے تو صبح گھرسے مکتب جاتےہوئے کتاب بچوں کے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی۔ وقفہ کے دوران کھیلنے کے بجائے ہر بچے کی کوشش ہوتی تھی کے اگلی آزمائش (ٹیسٹ)کے لیے کچھ تیارکریں تاکہ جماعت میں شرمندگی نہ ہو۔
کچھ ہی عرصہ پہلے کی تو بات ہے امتحانات بہت منظم ہوا کرتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں ہماری جرابیں تک اُتروا دی جاتی تھیں، آستینیں چڑھا دی جاتی تھیں۔ فرسٹ ڈویژن میں امتحان پاس کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ آج کل کے امتحانی نظام میں بچہ بغیر پڑھے بھی پہلی پوزیشن آسانی سے حاصل کر لیتا ہے۔ آخر ایسا ہوا کیا کہ بچے پڑھتے نہیں ہیں۔ اُن کو امتحان کا کوئی خوف نہیں ہے اور بغیر پڑھے پاس بھی ہو رہےہیں۔ یہ تو صاف ظاہرہے کہ جب بھی کوئی نظام فیل ہوتا ہے تو اس کا ڈرمعاشرے میں ختم ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی شخص اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ یہاں توبچوں کو فیل ہی نہیں کیا جاتا۔ والدین معاشی طور پر اتنےجکڑےہوئے ہیں کہ وہ ان کےلیے صرف دال روٹی کمانے کے چکر میں ہیں۔ بچہ پڑھتا ہے یا نہیں، والدین بری الذمہ ہیں۔ بچہ فیل نہیں ہوگا تو اسے اپنے خامیوں کا احساس کیسے ہوگا؟ فیل ہونے کے بعد جو طاقت و ولولہ پیدا ہوتا ہے وہ کیسے پیدا ہوگا؟
اگر ہمیں اپنی نسلوں کو تخلیق کار دیکھنا ہے اور سائنس اور ادب میں نام پیدا کرنا ہے تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام بالخصوص امتحانی نظام پر کام کرنا ہوگا۔ خدانخواستہ اگر ہم ایسا کچھ نہیں کرپاتے اور اپنے طلبہ کو ایک اچھا تعلیمی نظام نہیں دیتے تو ہم پی۔ایچ۔ڈی ڈاکٹر تو پیدا کرتے رہیں گے لیکن وہ ایک سوال تخلیق کرنے کے بھی قابل نہیں ہونگے۔