تعلیم کامیابی کی کلید ہے

تعلیم کامیابی کی کلید ہے

تعلیم زندگی میں کامیابی اور تکمیل کے حصول کا کلیدی عنصر ہے۔ بچوں کے لیے ایسے ماحول میں ہونا ضروری ہے جو سیکھنے اور ترقی کے لیے سازگار ہو۔ مکتب کا انتخاب کرتے وقت یہ ضروری ہے کہ ماحول اور اس کے فراہم کردہ تعلیم کے معیار پر غور کیا جائے۔ بدقسمتی سے بعض اداروں میں زہریلے ماحول کے امکانات موجود ہیں اور اس سے آگاہ رہنا اور بچوں کو اس سے بچانا ضروری ہے۔ مکتب کے خراب ماحول کے علاوہ، بچوں کو برے ساتھیوں سے بچانا بھی ضروری ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہیے اور مکتب میں ان کے تجربات سے آگاہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ ان کے بچے بہترین تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ابتدائی تعلیم اہم ہے

ایک بات تو والدین کو اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بچے کی ابتدائی سالوں کی تعلیم و توجہ بہت اہم ہے۔ یہ وہ سال ہیں جب بچے کا ذہن بن رہا ہوتا ہےاور یہ بچے کو ذہین بناتے ہیں اور اگربچے کو خاص توجہ نہیں دی گئی تووہ کمزور ذہن کے مالک بن سکتے ہیں۔  بطور معلم و منتظم میں والدین سے ضرور یہ گزارش کروں گا  کہ بچے کو  مکتب بھیجنے سے پہلے اسے گھر میں ہی حروف تہجی، ہندسے، رنگ و جانوروں کے نام وغیرہ سکھائیں تاکہ جب وہ  مکتب جائے تو وہ اپنے آپ کو با اعتماد محسوس کر سکے، معلم اور ساتھیوں کی طرف سے تعریفیں وصول کر سکے۔ یہ عمل بچے کی خواندگی کی بنیادی اینٹ ثابت ہوگا۔

آپ بچے کو  مکتب داخل کرانے سے پہلے  کونسی بنیادی مہارتیں سکھانا چاہیں گے؟

جب بچہ ثانوی (ہائی) جماعتوں میں جاتا ہے تو اساتذہ اس کی بنیادی مہارتوں پرتوجہ نہیں دیتے اور نہ ہی وہ ان جماعتوں میں ایسا کر سکتے ہیں۔ اور دوسری طرف بچے کی بنیادی صلاحیتیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان جماعتوں کا کچھ بھی نہیں سمجھ رہا ہوتا اور آخر کار پڑھائی سے تنگ آکر مکتب چھوڑ دیتا ہے۔

محمد یوسف کمپیوٹر پر رنگ بھرتےہوئے

میرا بیٹا بہت فعال(Energetic) تھا۔ امی مجھے اکثر کہتی تھی کہ یہ میرے برعکس بہت شیطان ہے۔ میں امی سے کہتا تھا کہ  اب اس کا دماغ بننے لگا ہے۔ اگر اسے مارنے یا ڈرانے سے قابو کیا گیا تو اس کا دماغ اس طرح نہیں بن پائے گااور وہ ذہین بچہ نہیں ہوگا۔ جب وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہو جائے گا تو  سب کچھ بھول جائے گا اور اپنی تمام تر توانائیاں  پڑھائی پر  صرف کرے گا۔ والدین اکثر بچوں کو کہ دیتے ہیں کہ یہ بہت شیطان ہے۔  ایسا کوئی رویہ نہیں ہے۔ یہ بچے کی توانائی ہے جس کو والدین و اساتذہ نے کوئی مثبت سمت نہیں دی اور غلط جگہ استعمال ہو رہی ہے۔ 

"تحقیق کہتی ہے کہ تین سال تک بچے کا 80-85 فیصد تک کادماغ مکمل ہوجاتاہے”

میں نے ثانویں جماعتوں میں دیکھا کہ بہت سارے بچے ایسے بھی ہیں جو اس مقام پر پہنچنے کے باجود بھی پڑھ لکھ نہیں سکتے۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جہاں پر بچے سیکھے ہوئے علم کو عملی طور پر لاگو کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ بچوں کی اگر صیح طریقے سے پرورش ہوئی ہے اور وہ اپنی منزل کے بارے میں صحیح سے جانتے ہیں، ایسےبچے تو انہیں جماعتوں سے خود کے کاروبار کے مالک بن جاتے ہیں۔ اس مقام کا بچہ اگر پڑھ لکھ نہیں سکتا تو یہ والدین کے لیے بہت بڑا درد ہے۔ میں نے اپنی تحقیق میں دیکھا کہ یہ وہ بچے ہیں جن کے والدین ان کے ابتدائی تعلیم میں شامل نہیں تھے۔ بچے آہستہ آہستہ ضائع ہوتے گئے اور والدین کو علم تک نہیں تھا۔ 

آپ کا بچہ کس   مکتب و جماعت میں زیر تعلیم ہے؟


اس کی جماعت میں ٹوٹل کتنے بچے ہیں اور ان میں اس کا کیا مقام ہے؟


آپ نے کمرہ جماعت دیکھا ہے اور کیا وہ اس عمر کے بچے کی تعلیمی ماحول کے مطابق ہے؟


بچے کا کوئی استاد منفی سوچ کا تو نہیں ہے؟


وہ کہیں نفر تیں تو نہیں پھیلاتا؟


آپ نے اساتذہ کے ساتھ بچے کی کمزوریوں پر بات کی ہے؟


 آپ نے ان کمزوریوں کو ختم کرنے کے لیےکیا طریقۂ کار بنایا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے