بچوں کو گھریلو تشددسے بچائیں
بچوں کی پرورش، تربیت اور پڑھانا مشکل کام ہیں۔ اس کے لیے بہت زیادہ مہارتیں، مستقل مزاجی اور صبر چاہیے لیکن بد قسمتی سے ترقی پزیر ممالک میں یہ سارے کام ڈنڈے سے لیے جاتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں مکتب پڑھا کرتا تھا تو مہینے میں ایک دفعہ ہم ڈنڈوں کے بنڈل لے کر جایا کرتے تھے اور پھر انہیں ڈنڈوں سے مار کھایا کرتے تھے۔
بچوں پر گھریلو تشدد بدسلوکی کی ایک شکل ہے جو اس وقت ہوتی ہے جب والدین یا دیکھ بھال کرنے والابچے کو سنبھالنے، ڈرانے یا نقصان پہنچانے کے لیے جسمانی یا جذباتی زیادتی کا استعمال کرتا ہے۔ بچوں پر گھریلو تشدد کے طویل مدتی جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی اثرات ہو سکتے ہیں۔ایسے ماحول میں بڑا ہو کر بچہ خود زیادتی کرنے والا بن جاتا ہے اور دوسروں کے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے۔
جب آپ بچے پر الزام لگاتے ہیں، تنقید کرتے ہیں یا اس پر چیختے ہیں، تو یہ واضح طور پر آپ کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ کو اسے قبول کرنا چاہیے اور اس پر کام کرنا چاہیے۔ |
جہاں تک میں نے دیکھا ہے ایسے بہت کم بچے ہوں گے جن پر گھریلو تشدد نہ ہوا ہو۔ بچے کہیں نہ کہیں اپنے والدین، بڑے بہن بھائیوں، چچا یا پھرپھوپھیوں کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ میں خود اس کا مسلسل شکار رہا ہوں۔ گھریلو تشدد ایسے کیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی انسان نہ ہوں بلکہ کوئی بے جان چیز ہو اور ان کے مکمل اختیار میں ہوں۔ ایسے گھرو ں میں بچے مسلسل خوف کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور تشدد کرنے والے سے پناہ مانگتے رہتے ہیں۔ یہ کیسا بچپن ہے؟ یہ کیسا گھر ہے؟ یہ کیسا تحفظ ہے؟ والدین کی یہی تو بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے کو وہ بچوں کو ایک محفوظ پناہ دیتے ہیں۔ بچے کی اچھے نشوونما اور تربیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کو اچھی خوراک، تعلیم، محفوظ پناہ گاہ، صحت مند کھیل کا وقت، اور تربیت دیں۔
جس عمر میں آپ کا بچہ ہے اس کی کیا ضروریا ت ہیں؟ فہرست بنا کر اہمیت کے مطابق ترتیب دیں۔ |
بچوں پر گھریلو تشدد کی علامات کو پہچاننا اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا ضروری ہے۔ بچوں کے خلاف گھریلو تشدد کی علامات میں جسمانی نشانیاں شامل ہو سکتی ہیں جیسے کہ خراشیں وغیرہ۔ جذباتی علامات جیسے خوف، اضطراب، یا افسردگی؛ اور طرز عمل کی علامات جیسے جارحیت، دست برداری، یا مکتب کی خراب کارکردگی۔