بچوں کی پرورش کے انداز کا انتخاب کیسے کریں؟
میں نے دیکھا ہے کہ صرف بچوں کی تربیت کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان سے وہ کچھ کرنے کی امید کی جاتی ہے جو والدین خود نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ تربیت تو والدین کی ہونی ہے۔ بچے تو وہی ہیں جووالدین ہیں۔ جو والدین کریں گے، بولیں وہی بچے کریں گے۔اس لئے والدین کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ خود تربیت یافتہ ہوں۔ وہ اپنے آپ کو اور بچے کو پہچانتے ہوں ۔ اس حصے میں ہم بچوں کے پرورش کے انداز، نشوونما کے مراحل، سیکھنے کے انداز، بچے کے جذبات اور یہ کہ والدین اور اساتذہ کس طرح ایک اچھی شروعات لے سکتے ہیں کو دیکھیں گے۔
اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے بعد جب میں پہلی مرتبہ مکتب گیا، پہلے بچے کے ساتھ بیٹھا، اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اُسے بیٹا کہا تو مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا۔ میں نے اپنی سوچ میں انتہائی مثبت تبدیل محسوس کی۔ میرا انداز پہلے بھی یہی تھا لیکن کوئی خاص احساسات نہ تھے، کوئی خاص محبت نہ تھی۔ آج میں ان سب کو اپنا بیٹا سمجھ رہا تھا۔ سب کے چہروں میں مجھے "محمد یوسف "نظر آرہا تھا۔
بطور والدین آپ اپنی ذمہ داریوں کی وضاحت کیسے کرتے ہیں؟ |
پرورش کے انداز کا انتخاب کرنا
بچوں کی پرورش ایک پیچیدہ، صبر آزما اور مشکل کام ہے۔ اس کے لیے صبر، سمجھ اور لچک کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین کا بچوں کی پرورش کا اپنا ایک منفرد انداز ہوتا ہے، اور ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ ہوں کہ ان کا انداز کیا ہے اور اس کا بچوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اپنے انداز کو جاننا آپ کو بچوں کے لیے زیادہ مثبت اور کامیاب ماحول دینے میں مدد دیتاہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر والدین کو "بچوں کی پرورش کا طریقہ” ورثہ میں ملا ہے اور ایک ہی طریقہ ہے جس سے وہ ان کی پرورش کرتے ہیں۔ والدین اس سلسلہ میں کسی قسم کی تربیت یا مدد لینے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ اس سے بڑھ کر کوئی بھی اہم ذمہ داری ان کے زندگیوں میں آنے والی نہیں ہے۔ یہ وراثتی طریقہ بچے کو کچھ اہمیت نہیں دیتا۔ اس فلسفے کامضبوط یقین ہے کہ بچوں کے ساتھ والدین جتنی سختی کریں گے اتنے ہی بچے اچھے ہوں گے جو غلط اور گمراہ کن ہے۔ میں نےاپنے ارد گرد والدین کو دیکھا ہے وہ یا تو بچے کو بہت آمرانہ انداز سے سنبھالتے ہیں یا پھر اپنے بچوں کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں۔ یہ دونوں انداز بچے کو خراب کرتے ہیں۔ نظر انداز شدہ بچے شروع سے خراب ہوجاتے ہیں اور آمرانہ کنٹرول والے بچے زندگی میں آگے جا کر خراب ہوجاتےہیں۔ اس لیے والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ والدین کی اقسام کے بارے میں جانیں اور انھیں ضرورت کے مطابق بچوں کی پرورش میں لاگو کریں۔
عموماً والدین کو چار اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے جو درج ذیل ہیں:
- آمرانه انداز (Authoritarian )
- مستند انداز(Authoritative )
- نظر انداز کرنے والا انداز(Neglectful)
- اجازت دینے والا انداز(Permissive )
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کونسا طریقہ بچوں کی پرورش کے لئے درست ہے؟ اس کا کوئی سادہ ساجواب نہیں ہے۔ اس کا انحصار مختلف عناصر پر ہوسکتا ہے ۔ آئیے ان مثالوں سے ان طریقہ ہائے کار کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آمرانه انداز | واضح اصول،جارہانہ انداز، زیادہ توقعات،جذباتی فاصلہ، سزائیں |
مستند انداز | واضح اصول،جمهوری انداز، زیادہ توقعات، باہمی مشاورت |
نظر انداز کرنے والا | نظر اندازی، غیر فعال، بہت ہی کم وقت،عدم دلچسبی،کم توقعات |
اجازت دینے والا | کم ہدایتیں،خوش مزاجی، اجازت دینے ولا،قبول کرنے والا،نرم مزاج |
مکتب میں ہر مہینے والدین واساتذہ کا اجلاس ہوا کرتا تھا۔ والدین کوفون کالز کر کے یا پھر کسی بھی طریقے سے بلایاجاتا تھا تاکہ کسی نہ کسی طرح وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ جڑے رہیں ۔ کچھ والدین تو آجاتے تھے پران کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا تھا کہ بچہ کس جماعت میں پڑھتا ہے۔ ایسے میں پورے مکتب کی فہرستیں دیکھنی پڑتی تھیں تاکہ ان کو پروگرس کارڈ دیا جاسکے۔
شکایت رجسٹر مکتب کا لازمی جُز تھا۔ اس میں بچوں کی شکایتیں درج کی جاتیں اور اکثر والدین کو مکتب بلایا جاتا تاکہ وہ گھر میں بچوں کا خیال رکھیں۔ ایسے ہی ایک دفعہ ایک والد کو بُلایا گیا اور اس سے مسلسل درج ہونے والی شکایات کا ذکر کیا گیا۔ والد بہت پُر اعتماد انداز میں کہنے لگے: ” دیکھیں! میں نے جو زندگی گزارنی تھی گزار دی ہے۔ یہ ان کی زندگی ہے جس طرح گزاریں ان کا مسئلہ ہے میرا نہیں۔ میں ان کی اتنی فکر کر کے اپنی زندگی خراب نہیں کر سکتا۔” یہ کوئی حالات کا مارا والد نہیں تھا بلکہ کاروباری شخص تھا اور کروڑوں کا مالک تھا۔
آپ کس انداز سے بچوں کی پرورش کر رہے ہیں اور اس کی کیاوجہ ہے؟کیا آپ اس انداز کو بدلنا چاہتے ہیں اور کیوں؟ |
اگر والدین بچوں کو اس حد تک نظر انداز کریں گے اور ان کو بوجھ محسوس کریں گے تو ان کی تربیت کیسے ممکن ہو پائے گی اور وہ کیسے معاشرے کے مفید رکن بن سکیں گے۔اچھے والدین اور اچھے بچے کی پرورش کے لیے ضروری ہے کہ وقت اور حالات کے مناسبت سے یہ انداز بدلے اور اپنائے جائیں۔
جب سمارٹ فون نئے تھے تو بہت مہنگےہوا کرتےتھے اور بہت کم لوگوں کے پاس تھے۔ ایک دن ایک بچہ ایک مہنگا سمارٹ فون لے کر آیا۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ اس کا تعلق کسی امیر گھرانے سے نہیں بلکہ وہ اپنے اور گھر کے فیصلوں میں خود مختار تھا۔ جب اس کے ہاتھ میں اتنا پیسا تھا تو لازمی بات ہے اس نے سب سے پہلے اپنی خواہشیں پوری کرنی تھیں۔ اپنے فیصلوں میں آزاد ہونے کی وجہ سے وہ بچہ نہیں پڑھ سکا۔ اس وقت جب میں یہ یاداشتیں لکھ رہا ہوں، وہ خود اپنے گھر کا سربراہ ہے۔ اس کے اپنے بچے ہیں، وہ مشکل سے ہی مزدوری ڈھونڈ پاتا ہے اور انتہائی دردناک زندگی گزار رہا ہے۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ درسی کتابوں میں بچوں کی پرورش پر مواد شامل کر لینا چاہیے؟ اگر ہاں تو کس جماعت سے؟ |
ایک ایسے والد کو میں جانتا ہوں جس کا اپنے بچے کے ساتھ انداز نہایت ہی آمرانہ تھا۔ اچھے نمبروں کی رٹ کے علاوہ اس کا اپنے بچے کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ امتحانات ہوئے اور بچے کے نمبر اچھے نہیں آئے۔ اس کا اپنے والد سے رشتہ ٹوٹ گیا اور والد کے خوف سے خودکُشی کر لی۔ آپ اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں آپ کو اس قسم کی کئی مثالیں ملیں گی ۔
تو والدین کو کیا کرنا چاہیے؟
مندرجہ بالا مثالوں سے ایک بات جو واضح ہوتی ہے کہ بچوں کو بالکل آزاد چھوڑ دینا اور انہیں اپنے فیصلے خود کرنے دینا (اجازت پسندانہ انداز) بچوں کو شروع سے ہی بگاڑ دیتی ہے کیونکہ اس عمر میں بچے فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور وہ غلط قسم کے گروہ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ بہت زیادہ سختی کرنے (آمرانہ انداز) سے وقتی طور پر تو بچوں کو سنبھالا جا سکتا ہے لیکن ایسے والدین اور بچوں کے درمیان فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے اور زندگی میں آگے جا کر ایک تو یہ بچے بگڑ جاتے ہیں دوسرا یہ والدین کے ساتھ بھی رابطے میں نہیں رہتے۔ بچوں کو بالکل نظر انداز کر دینا تو بچوں کو شروع سے خراب کر دیتا ہے۔اسی طرح کچھ والدین بچوں کے ساتھ اپنی محبت، جذبات، رویہ، لہجہ اور مسکراہٹ کو مشروط کر دیتے ہیں جس کا ان پر برا اثر پڑتا ہے۔ بچوں کے ساتھ ہمیشہ غیر مشروط رہیں۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ان میں سب سے بہتر مستند اسلوب ہے۔ اپنے بچے کے ساتھ بیٹھیں اور اس کے فیصلوں اور کاموں میں اس کی مدد کریں۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر وقت ایک ہی انداز میں رہیں بلکہ حالات اور بچے کی عمر کے مطابق اسے بدلتے رہیں۔امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن بھی مستند والدین کے انداز کی حمایت کرتی ہے۔ ان کے مطابق، اس انداز کے ساتھ پرورش پانے والے بچے دوستانہ، توانا، خوش مزاج، خود انحصار، خود پر قابو پانے والے، متجسس، تعاون کرنے والے اور زندگی میں کامیاب ہونےوالے ہوتے ہیں۔
ہیلی کاپٹر پیرنٹنگ | ہیلی کاپٹر پیرنٹنگ والدین کا ایک انداز ہے جس میں وہ اپنے بچوں پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں اور ان کے ہر کام کو سختی سے دیکھتے ہیں۔ |
سنو پلو پیرنٹنگ | سنو پلو پیرنٹنگ، جسے لان موور پیرنٹنگ یا بلڈوزر پیرنٹنگ بھی کہا جاتا ہے، والدین کا ایک انداز ہے جو بچے کے راستے سے تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ انہیں ناکامی یا تکلیف کا سامنا نہ ہو۔ |
بچوں کی پرورش کے انداز (Parenting Style)کو بہتر بنانے کے لیے صبر، ایمانداری اور بہت زیادہ محنت کی ضرورت پڑ تی ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اچھا کام شروع ہونے میں کبھی دیر نہیں ہوتی۔ آپ کی کوئی بھی مثبت تبدیلی آپ کے بچے اور معاشرے کے لیے بہترین نتائج کا باعث بنتی ہے۔