کاش والدین یہ جانتے ہوتے: بچے ، مکتب اور والدین

کاش والدین یہ جانتے ہوتے: بچے ، مکتب اور والدین

زمانہ طالب علمی میں ہاسٹل کی چھت پر بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا۔ روز ایک والد کو اپنی تین چھوٹی بچیوں کو پرانی سائیکل پر مکتب (سکول) لے جاتے اور واپس لاتے دیکھتا تھا۔ یہ منظر میرے لئے پُرکشش تھا۔ لازمی بات ہے  ایک دھتکارے ہوئے بچے کے لئے ایسے مناظر بہت کشش رکھتے ہیں۔ ایسے خاندان کا بچہ جہاں بچے کی کوئی اوقات نہ ہو اُس کے لئے یہ ایک نئی دنیا تھی۔ سائیکل پر سوار باپ بیٹیاں جب گزر جاتے تو میں خیالوں میں کھو جاتا اور گھنٹوں  سوچتا رہتا  کہ کاش میرے بھی والدین ایسے ہوتے! میں بھی ایسے گھر میں پرورش پاتا! 

یہ ٖصرف میری خواہش نہیں تھی ،  یہ اکثریت بچوں کی خواہش ہے کیونکہ ہمارے اکثر بچے گھروں سے بُری طرح انظر انداز ہیں۔ خواہ یہ غفلت غربت کی وجہ سے ہو یا والدین کی مسلسل مصروفیت;  یہ ہماری نسلوں کو بُری طرح سے خراب کر رہی ہے۔ لیکن اب جب میرا زیادہ تر وقت بچوں اور والدین کے ساتھ گزرتا ہے تو مجھے احساس ہونے لگا ہے کہ بنیادی مسئلہ بچوں کی پرورش کے حوالے سے سمجھ کی کمی اور ہمارے اجتماعی شعور میں ان بنیادی اصولوں کی عدم موجودگی ہے۔

مکتب میں میرے پاس 800 کے قریب بچے پڑھتے ہیں اور میں گزشتہ 14سالوں سے ان کی تعلیم و تربیت  میں مصروف عمل ہوں۔ اس دوران میں نےوالدین اور بچوں کے درمیان تعلق کوبہت قریب سےدیکھااورمطالعہ کیا ہے۔ مجھےبہت افسوس ہوتا ہے یہ کہتےہوئے کہ میں نے اس رشتے کوبہت کمزور پایا۔  بچوں کو اگر آپ کچھ دے سکتے ہیں تو یہ وہ لمحات ہیں جس میں آپ بچے کے ساتھ سکون محسوس کرتےہیں، آپ کا دل محبت سے بھر رہاہوتاہے، آپ اپنے معمولات زندگی کوبھول جاتے ہیں، مکمل طورپربچوں میں کھو جاتے ہیں، صرف بچوں کے ہوکر رہ جاتےہیں۔یہ وہ لمحات ہیں جن کی ایک بچے کو ضرورت ہوتی ہے اور والدین کو بھی۔ یہ وہ لمحات ہیں جہاں والدین اور بچے کا رشتہ بنناشروع ہوتا ہے۔ 

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ محبت، یہ رشتہ وقت کے ساتھ بڑھتا جاتا لیکن آفسوس کی بات ہے کہ جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں والدین اور بچوں کے درمیان رشتہ کمزور ہوتا جاتا ہے۔ والدین کو ایک بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ  وہ صرف بچے کی پرورش نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنے اوربچے کے درمیان اس   پیارے سے رشتے کی بھی پرورش کر رہے ہوتے ہو۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے ایسے ہی اس کے ساتھ والدین کا رشتہ و ربط بھی بڑا اور مضبوط ہوتا جاتا ہے۔

  بچوں کے ساتھ ربط کے کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ والدین کے ساتھ کچھ بھی شریک نہیں کرتے،  وہ باہر تعلقات بناتے ہیں اور اپنے دُکھ، درد یا خوشیاں باہر شریک کرتے ہیں۔  باہر کے لوگ جتنے بھی اچھے ہوں ان   میں والدین کا جذبہ نہیں آسکتا۔ وہ بچے کی  کبھی بھی ٹھیک سے رہنمائی نہیں کر سکتے۔ اکثر  بچے تو بُرے لوگوں کے ہاتھوں چڑ ھ جاتے ہیں ۔آج معاشرے میں آپ کو جو بھی منفی کردار نظر آتے ہیں ان کی وجہ ایک ہی ہے کہ ان کا گھر سے ربط کمزور ہوا ۔ وہ باہر غلط قسم کے لوگوں کے ساتھی بن گئےاور معاشرے کے بُرے فرد بن گئے۔ 

اس کتاب کے لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

میں پچھلے 14 سالوں سے بچوں اور ان کے والدین کا مشاہدہ کر رہا ہوں اور ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کچھ بچے پڑھائی میں بالکل بھی دلچسپی نہیں لیتے۔  وہ گھر جا کر بھی سکول کا کسی قسم کا کام نہیں کرتے۔ مکتب میں ان کی  شکایات درج ہوتی رہتی ہیں اورمعلمین بھی ان سے تنگ ہوتے ہیں۔ مکتب میں ان کا رجحان پڑھائی کے بجائے دوسرے معاملات کی طرف زیادہ ہوتاہے۔ یہ بچے پڑھائی میں تو ناکام ہوتے ہی ہیں ساتھ ساتھ یہ زندگی میں بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچے آگے جا کر  والدین اور معاشرے کے لئے درد سر بن جاتے ہیں۔  دوسری طرف ایسے بچے ہیں جو مکتب میں سیکھنے کے عمل  کے ساتھ مصروف رہتے ہیں۔  وہ اپنے آپ پر کام کرتے ہیں۔ یہ بچے  پڑھائی میں تو کامیاب ہوتے ہی ہیں ساتھ ساتھ یہ والدین اور پور ے معاشرے کا فخر بنتے ہیں۔ 

والدین اور ان بچوں کے  مشاہدے کے بعد جو ایک وجہ سامنے آتی ہے کہ بچوں کی ٌپرورش کے لئے وراثتی طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے۔ جو انہوں نے اپنے والدین اور بڑوں میں دیکھا وہی اپنے بچوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔جہاں  وراثتی طریقہ میں بڑی ساری مثبت باتیں ہیں وہی اس میں کچھ ایسے طریقے ہیں جو بچے کو بہت منفی طریقے سے متاثر کرتے ہیں۔ وراثتی طریقہ کار بچے کو صیح اہمیت نہیں دیتی۔ والدین بچوں پر الزام تراشی کرتے ہیں، ان پر غصہ کرتے ہیں اور بعض اوقات تو بات گھریلو تشدد تک پہنچ جاتی ہے ۔  میں نے دیکھا ہے کہ بچوں کو بچپن سے ہی نفر ت کرنا سیکھائی جاتی ہے اور وہ  نفرت میں ہی بڑھے ہورہے ہوتے ہیں۔ بچوں کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

  کوئی بھی والدین یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کر رہے ہوتے۔ وہ صرف اس انداز سے بچے کی پرورش کر رہے ہیں جس طرح انہوں نے دیکھا یا ان کے ارد گرد معاشرے کے بچوں کی پرورش ہو رہی ہوتی ہے۔  بچے کے حوالے سے یہ باتیں بہت معمولی معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ بہت باریک  اور نازک ہیں۔ ان کا نتیجہ بہت درد ناک ہے۔ اگر والدین تھوڑا سا  بھی بچے کی پرورش کے بارے میں پڑھ لیں تو ہمارے بچے ضائع ہونے سے بچ جائیں اور ہمارا آنے والا معاشرہ جنت کا منظر پیش کرے۔ 

آپ حادثاتی طور پر اچھے والدین نہیں بن سکتے

 ہمارے ہاں والدین  اس بارے میں علم حاصل کرنے، کوئی کورس کرنے یا پھر کچھ پڑھنے کو اہمیت نہیں دیتے حالانکہ  ہماری زندگی میں بچوں سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔   اگر والدین اس کے بارے میں تھوڑا پڑھ لیں یا پھر کوئی ویڈیو کورس دیکھ لیں تو وہ ان منفی  عوامل کو  لاشعور میں رکھ سکتے ہیں اور بچوں کو ایک مثبت ماحول دے سکتے ہیں۔ بچے کی اچھی پرورش کے لئے آپ کو سیکھنا پڑے گا۔ آپ حادثاتی طور پر اچھے والدین نہیں بن سکتے۔ 

 میں جب یہ یاداشتیں لکھ رہا تھا تو اس کے کچھ اقتصابات اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شریک کئے ۔ میں نے دیکھا کہ کچھ والدین نے اعتراضات چھوڑے کہ وہ بچوں کو مشکل سے کما کر دے رہے ہیں۔ اُن کے پاس اتنے پیسے یا پھر وقت کہاں ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ یاداشتیں بنائیں۔ میرا یقین ہے کہ بچے کبھی بھی یہ نہیں دیکھتے کہ آپ امیر ہیں یا پھر غریب، ہاں وہ یہ ضرور خیال رکھتے ہیں کہ آپ ان کو کیسے محسوس کراتے ہیں۔  آپ اتنی مشکل زندگی اپنے بچوں کی وجہ سے ہی تو گزار رہے ہیں لیکن اتنی مشکل زندگی کے باوجود اگر ان کی تربیت نہ کر پائیں اور وہ ایک پاک زندگی نہ گزار پائیں تو ایسی مشکل زندگی کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ 

کتاب کی تقسیم

میں حال ہی میں ایک 70، 75 سال کے بزرگ سے ملا۔ اس  نے  اپنے ملک میں محنت مزدوری کرنے کے بعد بیرون ملک 23 سال محنت کی اور بہت پیسہ کمایا۔ بچوں کے لئے مربعے خریدکر دیے۔ جب میں اس سے مل رہا تھا اس وقت بھی اس کا ٹھیک سے کاروبار چل رہا تھا۔  اس کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہ تھی لیکن اس کے بچے اس سے زمینوں کے معاملات پر ناراض تھےاور ملتے نہ تھے۔ اس کی ساری اولاد ان پڑھ تھی اور اس کی پڑھائی پر کسی قسم کی توجہ نہ دی گئی تھی اور نہ ہی اس پر خرچ کیا گیا تھا۔ اس کے پوتے اب بھی ایک گھنٹے کا پیدل سفر کر کے ایک عام سرکاری سکول جاتے تھے جس میں اساتذہ و پڑھائی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس بابا کی اتنی محنت اور پردیس کا کیا فائدہ کے وہ نہ تو اپنے بچوں کی تربیت کر پایا اور نہ ہی ان کو کچھ پڑھا پایا۔ اگر وہ بچوں کی پرورش اور ان باریکیوں سے واقف ہوتا تو ان کے لئے مربعے خریدنے کے بجائے ان کی تعلم و تربیت پر خرچ کرتا اور ممکن ہے کہ وہ یہ حالات آج نہ دیکھتا۔ 

واٹس ایپ پر فالو کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔

https://whatsapp.com/channel/0029Va94Odt77qVSBaPdRF3H

میرا یقین ہے کہ اگر والدین بچوں کی اچھی  پرورش کرتے ہیں تو ان کی آنے والی نسلیں ان خاندانوں سے بہتر اور پُر سکون زندگی گزاریں گی جو بچوں کی پرورش وتربیت سے ناآشنا ہیں۔ اس کتاب  میں مکتب کے سربراہ کی حیثیت سے اور والدین کے ساتھ رابطے میں میرا 14 سال کا تجربہ اور سینکڑوں والدین کے واقعات و تجربات شامل ہیں جو اچھی رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔  اس میں والدین کے لیے گھر پر مشق کرنے کے لیے ضروری سرگرمیاں شامل ہیں تاکہ وہ ان کی روشنی میں اپنی  صلاحیتوں پر نظر ثانی کر سکیں اور دور جدید کے مطابق بہتر بناسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے