بچوں کو اظہار خیال کی مہارتیں سکھائیں
یہ بات شاید دو سال سے زیادہ پرانی نہ ہوجب مجھے ایک محفل میں ایک بزرگ کو سننے کا موقع ملا۔ میں اس وقت اظہار خیال سے متعلقہ مہارتوں سے نہ صرف اچھی طرح واقف تھا بلکہ ان پر مزید کام کر رہا تھا۔ یہ بزرگ کوئی ستر سال کے چٹے ان پڑھ تھے جس نے اپنی زندگی میں شاید ہی کبھی قلم کو چھوا ہو۔ اس کو سنتے ہوئے مجھے لگا کہ یہ بزرگ بولنے میں انتہا کا تربیت یافتہ لگتا ہے اور ہر وہ اصول بہت اچھی طرح سے استعمال میں لا رہا ہے جو میں نے کہیں سے پڑھے تو ہیں لیکن کبھی استعمال نہیں کر پایا۔ اس کی آواز بہت بھاری تھی جیسے کہ اس نے کافی عرصہ ریاض کیا ہو، الفاظ کی ادائیگی میں ایک خاص ٹھہراؤ تھا، ہر لفظ کے حروف کی آوازوں کو پورا حق دے رہا تھا، اس کے نظریں ملانے اور مجمع کو قابو میں لینے کا انداز اس سے بھی زیاد پر کشش تھا۔ اختصار یہ کہ وہ بول رہے تھے اور مجمع انتہائی خاموشی سے سن رہا تھا اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ یہ اکٹھ اس کی مُٹھی میں ہے ، جہاں لے کرجائے ، جہاں رکھ کر آئے اس کو اختیار ہے۔
میں نے تھوڑی دیر تک آج کے تعلیم یافتہ نسل کا اس سے مقابلہ کیا جو اظہارخیال کی تعلیم لے کر بہت اچھے تعلیمی اداروں سے فارغ ہوئے لیکن مجھے کسی میں بھی ایسی مہارتیں نظر نہیں آئیں۔ معلمین جن کا کام ہی یہی ہے لیکن مجھے کوئی بھی اس قسم کا ماہر نظر نہیں آیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماراپڑھا لکھا طبقہ کہاں پر کیا کھو دیتا ہے کہ ان کے بولنے کی مہارتیں پھیکی ہی رہ جاتی ہیں اور وہ اچھے طریقے سے اظہار خیال نہیں کر پاتے؟ ہمارے معلمین کمرہ جماعت میں ٹھیک سے وضاحت نہیں کر پاتے اور ہمارے سائنسدان جو انتہائی اچھا لکھ تو لیتے ہیں لیکن بولنے میں اتنے ماہر نہیں ہوتے کہ وہ کسی معاملے کے ساتھ ٹھیک سے انصاف کر سکیں۔ مجھے اس میں سب سے بڑا مسلئہ سننے بولنے کے ریاض کا نہ ہونےکا لگتا ہے۔
میں نے ایک ایسے ہی بزرگ سے اس کے بچپن کے بارے میں پوچھا تو اسے نے کہا کہ
” ہمارے گھر میں ایک بہت بڑا حجرہ تھا جہاں پر رات گئے تک بیٹھک ہوا کرتی تھی اوربزرگ دیر تک گپ شپ لگایا کرتے اور کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ بچے بھی بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر کہانیاں سنا کرتےتھے۔ چونکہ بولنے کے لیے پہلے سننا بہت ضروری ہے اور ان لوگوں نے برسوں اپنے بزرگوں کو سنا ہے اس لیےان کے بولنے اور لوگوں سے ملنے جلنے کے انداز طاقت ور ہیں۔ "
اس واقعے کو یہاں پر بیان کرنےکا مقصد یہ ہے کہ ہمیں بہت سارے معاشرتی مہارتیں اپنی پرانی روایات اورتہذیب سے مل جاتی ہیں۔ معاشرتی مہارتیں کیا ہیں؟ وہ ساری مہارتیں جو ہمیں ایک معاشرے میں رہنے کے لیے درکار ہوں۔ ہم دوسروں کو اچھے اندازسے سن سکیں، ان سے اچھے انداز سے بات کرسکیں، ان کے احساسات کااندازا کر سکیں، ان کے پریشانیوں میں ان کے مدد کر سکیں۔ یہ ساری مہارتیں ہماری پُرانی تہذیب میں بھری پڑی ہیں۔
ہم اپنے بچوں کو یہ مہارتیں کیوں سکھائیں؟
بچوں کی سماجی مہارتوں کی نشو و نما ان کی مجموعی ترقی کے لیے اہم ہے۔ بچوں کو یہ سیکھنا چاہیے کہ سماجی دنیا میں کیسے جانا ہے اور لوگوں کے ساتھ تعمیری انداز میں کیسے مشغول ہونا ہے۔ درج ذیل باتیں آپ کے بچے کی سماجی مہارت کی نشوونما میں مدد کر سکتے ہیں۔
دوسرے بچوں کے ساتھ چیزیں شریک کرنا
اپنے بچے کو اپنے کھلونے، کھیل اور دیگر اشیا دوسرے بچوں کے ساتھ بانٹنے کی ترغیب دینا ایک اچھا خیال ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ سخاوت اور دوسروں کی ضروریات کے بارے میں آگاہی حاصل کریں گے۔
دوسروں کو سننا
اپنے بچے کو سکھائیں کہ وہ دوسروں کی بات سنیں اور ان کے نقطۂ نظر کا احترام کریں۔ اس سے انہیں یہ سیکھنے میں مدد ملے گی کہ کس طرح مؤثر طریقے سے بات چیت کی جائے اور دوسروں کو سننے کی کیا اہمیت ہے۔
بڑوں کی ہدایات پر عمل کرنا
اپنے بچے کو یہ سمجھنے میں مدد کریں کہ بڑوں کے پاس اختیار ہے اور انہیں کی اطاعت کرنی چاہیے۔ یہ انہیں اختیار کا احترام اور اطاعت کرنا سکھائے گا۔
دوسرے بچوں اور بزرگوں کے ساتھ تعاون کرنا
اپنے بچے کو دوسرے بچوں اور بڑوں کے ساتھ تعاون کرنے کی ترغیب دیں۔ یہ انہیں سکھائے گا کہ ٹیم کے حصے کے طور پر کیسے کام کرنا ہے اور تعاون کی کیا اہمیت ہے۔
بچوں کی درجہ ذیل معاشرتی مہارتوں کو ان کی اہمیت کے مطابق ترتیب سے لکھیں؛ اپنی چیزیں دوسرے بچوں سے شریک کرنا، دوسروں کو سننا، بڑوں کی ہدایات پر عمل کرنا، دوسرے بچوں اور بڑوں کے ساتھ تعاون کرنا، صبر کرنا، ہمدردی کرنا، اور حدود کا احترام کرنا وغیرہ۔ |